یارن، کاٹن پر ڈیوٹیز ختم، بھارت و دیگر ممالک سے درآمد کی اجازت دی جائے، حنیف لاکھانی،فرحان اشرفی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Exporters face slew of difficulties due to Cotton, Yarn shortages, skyrocketing prices

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :کاٹن کی قلت، یارن کی انتہائی زائد قیمت، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پیداواری سرگرمیاں رکاوٹ کا شکار،پاکستان یارن مرچنٹس نے یارن، کاٹن پر عائد ڈیوٹیز ختم کرنے اوربھارت ودیگرممالک سے ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت مانگ لی۔

پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن( پائما) کے سینئر وائس چیئرمین محمد حنیف لاکھانی، وائس چیئرمین فرحان اشرفی نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بنیادی خام مال کاٹن یارن کی عدم دستیابی اور قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے فوری طور پر بھارت سمیت دیگر ممالک سے یارن اور کاٹن کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی جائے تاکہ برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل کی جاسکے بصورت دیگر پرانے آرڈرز منسوخ ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیامیں پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی اور غیر ملکی خریدار پاکستانی برآمدکنندگان کو نئے آرڈرز بھی نہیں دیں گے۔

ایک بیان میں پائما کے عہدیداروں نے کہا کہ کورونا وبا کے اثرات کے باعث بڑی تعداد میں چین، بنگلہ دیش اور بھارت کے برآمدی آرڈرز پاکستانی برآمدکنندگان کو منتقل ہوئے جس کی وجہ سے پیداواری سرگرمیوں میں تیزی آئی تاہم اِن دنوں ٹیکسٹائل انڈسٹری کوپیداوری طلب کے مطابق خام مال نہ ملنے اور مقامی مارکیٹوںمیں یارن کی قیمت انتہائی بلند سطح پر پہنچنے سے لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے لہٰذااگر اس کا نعم البدل دوسرے ممالک سے تلاش کرتے ہوئے بھارت سمیت دیگر ممالک سے خام مال کی درآمد ات کا انتظام نہ کیا توجو برآمدی آرڈرز پاکستان کو منتقل ہوئے ہیں وہ پورے نہیںکیے جاسکیں گے جس سے بیرونی دنیا میں پاکستان کی ساکھ خراب ہوگی اور ہمیںنئے آرڈرز بھی نہیں ملیں گے۔

مزید پڑھیں:فرحان اشرفی ایف پی سی سی آئی کی یارن ٹریڈنگ قائمہ کمیٹی کے کنوینر مقرر

حنیف لاکھانی اور فرحان اشرفی نے حکومت سے یارن، کاٹن پر عائد ڈیوٹیز فوری ختم کرنے اور بھارت سمیت دیگر ممالک سے ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ بھارت سے درآمدی یارن دیگر ممالک سستا پڑتا ہے اور سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس کے فریٹ چارجز بھی کم آتے ہیں نیز وقت بھی کم لگتا ہے لہٰذاحکومت صنعتی پیداواری سرگرمیوں کو بلارکاوٹ جاری رکھنے اور برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت سے یارن درآمد کرنے کی اجازت دے تاکہ پاکستانی برآمدکنندگان کو بھاری مالی نقصانات سے بچایا جاسکے ۔

Related Posts