پی ٹی آئی میں دراڑیں یا افواہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان تحریکِ انصاف آئی اور چھا گئی۔ یہ 2018 تھا جب عمران خان وزیر اعظم بنے اور درجنوں ایسے افراد اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی بن گئے جنہیں صرف چیئرمین پی ٹی آئی کے نام پر ووٹ دئیے گئے تھے۔

کم از کم پی ٹی آئی قیادت کا تو یہی دعویٰ تھا اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد کوئی وفاقی وزیر، کوئی معاونِ خصوصی تو کوئی مشیر برائے وزیر اعظم بن گیا، کسی کو صدرِ مملکت کا عہدہ ملا تو کوئی سینیٹر کی کرسی پر جا بیٹھا۔

پھر جب عمران خان کے بقول ان سے اقتدار چھینا گیا اور ان کے مخالفین کے بقول ان کو جمہوری طریقہ کار کے تحت تحریکِ عدم اعتماد لا کر قانونی طریقے سے ہٹایا گیا جو ملک کی تاریخ میں ایک پہلا واقعہ تھا، اب تک کتنی بار وزرائے اعظم اور حکومتوں کو ہٹایا تو گیا، اس کیلئے قانون کی پاسداری کبھی نہیں کی جاسکی۔

لیکن عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد لانے کے بعد وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا گیا۔ پھر ڈپٹی اسپیکر نے یہ تحریکِ عدم اعتماد مسترد کردی، صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عمران خان کے کہنے پر قومی اسمبلی ہی تحلیل کر ڈالی۔

لیکن پھر سپریم کورٹ حرکت میں آئی اور اچانک قومی اسمبلی بحال ہوگئی، تحریکِ عدم اعتماد کامیاب اور عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے باضابطہ محروم ہو گئے۔ بلاشبہ یہ تمام تر واقعات ملکی تاریخ کیلئے بالکل نئے تھے۔

پھر اس کے بعد جو ہوا، وہ بھی قابلِ دید رہا کہ شہباز شریف وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے اور پھر ہٹائے بھی گئے۔ پھر عمران خان کے خلاف شہباز شریف حکومت کے دوران کریک ڈاؤن شروع ہوگیا۔

عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک سے انہیں گرفتار کیا گیا، پھر چھوڑا گیا، پھر گرفتار کیا گیا اور اب پھر ایک بار عمران خان پولیس کی حراست میں ہیں تاہم اس بار انہیں 3 سال کی سزا کے ساتھ ساتھ 5سال کی نااہلی کا بھی سامنا ہے۔

اسی دوران حال ہی میں یہ خبر سامنے آئی کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ بعض میڈیا چینلز نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس میں تحریکِ انصاف کے 2 گروپ آمنے سامنے آگئے۔

مذکورہ دو گروہوں میں سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ رہنماؤن نے ایک دوسرے کو غدار قرار دیتے ہوئے الزامات بھی عائد کردئیے۔ ایک رکن کا کہنا تھا کہ عمر ایوب اور شبلی فراز اجازت دے دیں تو غدار کی نشاندہی کرسکتا ہوں۔

میڈیا کا یہ بھی فرمانا ہے کہ عمر ایوب غدار قرار دینے والے رکن سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ عمر ایوب اور شاہ محمود قریشی کے مابین عمران خان کا جانشین بننے کی کوششیں تیز ہوچکی ہیں تاہم ان تمام تر دعووں کی عمر ایوب خان نے تردید کردی۔

گزشتہ روز عمر ایوب خان نے کہا کہ میں شاہ محمود قریشی کی بے حد عزت کرتا ہوں۔ پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ مخالفین الیکشن کی تیاری کریں، انہیں عام انتخابات میں شکست دیں گے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پی ٹی آئی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں یا تحریکِ انصاف ابھی تک خود کو اس پوزیشن میں سمجھتی ہے کہ اپنے مخالفین کو شکست دے سکے جن میں اس کے اپنے چنیدہ الیکٹ ایبلز بھی شامل ہیں جو اب پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز یا پھر استحکامِ پاکستان پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں؟

Related Posts