وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ملائیشیا کا دو روزہ دورہ کیا ،وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ عمران خان کا ملائیشیا کا دوسرا دورہ تھا، اس دورہ میں تجارت، سرمایہ کاری، دفاع ودیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے سمیت قیدیوں کے تبادلے، پاکستانی لیبر کی سوشل سیکورٹی کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
وزیراعظم عمران خان ملائیشین ہم منصب مہاتیر محمد کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں برملا کوالالمپورکانفرنس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کوالالمپور کانفرنس سے یہ تاثر ابھراکہ مسلم امہ تقسیم ہوجائے گی جبکہ انہوں نے چھپے لفظوں میں سعودی عرب پر تنقید کرتے ہوئے آئندہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔
ملائیشیا میں ہونیوالی کوالالمپور سربراہ کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کا مختلف ممالک سے اخراج اور دنیامیں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا جیسے سیاسی موضوعات کے علاوہ مسلم امہ کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔اس کانفرنس کے انعقاد میں ملائیشیا، پاکستان ،ترکی، انڈونیشیا اور قطر شامل تھے۔مسلمان ممالک میں ترکی اور پاکستان دو اہم ترین فوجی طاقتیں ہیں۔
سعودی عرب کے زیر اثر اوآئی سی کامتبادل سمجھتے ہوئے سعودی عرب نے کوالالمپور کانفرنس کو ناکام بنانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا اور پاکستان پر شدید دبائو ڈال کر کانفرنس میں شرکت سے روک دیا تھاجبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی انتہائی متکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کوالالمپور کانفرنس کو وقت کا ضیاع قراردیا تھا۔
بھارت کی جانب سے کشمیر میں مظالم پر سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے کبھی واضح موقف اختیار نہیں کیا بلکہ کشمیر کے مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کے باوجود بھارت کیساتھ تجارتی روابط میں اضافہ اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو اعلیٰ سول اعزازات سے نوازتے رہے ہیں جبکہ ملائیشیا اور ترکی اپنے ذاتی مفادات سے قطع نظرہمیشہ کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
غیر عرب مہاتیر محمد اور طیب اردوان کوامت مسلمہ کے دو اہم ترین مسلمان لیڈر سمجھا جاتا ہے اس لیئے سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ اگر ملائیشیا، ترکی اور پاکستان ملکر ایک پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،تو عربوں کی حیثیت ختم ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کسی قیمت پر اوآئی سی کامتبادل برداشت کرنے کو تیار نہیں جس کی حیثیت محض ربڑ اسٹمپ سے زیادہ نہیں ہے۔
دورہ ملائیشیا میں کوالالمپور کانفرنس عدم شرکت کی وجوہات کا اقرار کرکے تلخی ختم کرنے کی کوشش مستحسن اقدام ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان آئندہ بین الاقوامی معاملات میں دوسروں کے بجائے پاکستان کے مفادات کو اپنی ترجیح بنالیں اور مسلم امہ کے اتحاد کیلئے کوششیں جاری رکھیں جبکہ آئندہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت پاکستان کیلئے سودمند ثابت ہوگی ۔