موجودہ کورونا وائرس بحران کے دوران حکومت کے لئے ایک مشکل ترین فیصلہ مساجد میں نماز جمعہ کے بارے میں ہے۔ واضح طور پر پابندی کے بجائے ایک قدامت پسند اور مذہبی ملک میں علما اور مذہبی اسکالرز کے درمیان سخت ردعمل پیدا ہوسکتا ہے۔
حکومت نے ممتاز مذہبی اسکالرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے صورتحال کو احتیاط سے سلجھایا‘جس نے مکمل پابندی کی مخالفت کی اور مساجد کو کھلا رکھنے کے علاوہ حفاظتی اقدامات اور دیگر ضروری احتیاطی تدابیر کا مطالبہ کیا۔ چونکہ کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، حکومت نے بڑی جماعتکو نماز جمعہ سے روکنے کی کوشش کی جبکہ علما اس اقدام پر بحث کرتے رہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور سخت متاثرہ ایران سمیت بہت سے مسلم ممالک نے مساجد اور دیگر عبادت گاہوں پر ہر قسم کی عبادات پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہاں تک کہ شبہات موجود ہیں کہ کیا اس سال حج کا انعقاد ہوگا کیوں کہ لاکھوں افراد حج کے لئے جمع ہوتے ہیں۔
پاکستان سمیت دیگر ممالک کو رواں سال کے لئے حج فارم پر دستخط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی، جو اسلامی تعلیم کا سب سے قابل احترام ادارہ ہے، نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ وبائی امراض کے دوران جماعتکے ساتھ نمازیں معطل کی جاسکتی ہیں۔
صدر عارف علوی نے مدرسوں کی سپریم کونسل سے مذہبی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے بارے میں رہنما اصول جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جامعہ الازہر کے امام نے ایک حکم جاری کیا کہ موجودہ بحران کے دوران جمعہ اور تمام اجتماعی نمازوں پر پابندی لگانا جائز ہے۔
حکومت سندھ نے تمام اجتماعی دعاؤں پر پابندی عائد کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ لیا۔ لاک ڈاؤن کے باوجود، جبکہ بہت سارے لوگوں کو مساجد کے باہر دیکھا گیا اور پولیس ان افرادکو اندر جانے کی روک تھام کرتی رہی۔
عوام کو حکومت اور اعلی تعلیمی اداروں کے مشوروں پر دھیان دینا چاہئے کیونکہ یہ غیر معمولی وقتہے۔ لوگوں کواس صورتحال کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں ہے جو اس وائرس کی علامت کو سمجھ نہیں رہے ہیں اور اس بیماری کو پھیلانے کا خطرہ پیدا کررہے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ گھر میں یا خود تنہائی میں رہیں۔
اسلام لچکدار مذہب ہے جو ہمیں اپنے کاروبار، معاشرتی اور خاندانی ذمہ داریوں کو جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ مذہبی ذمہ داریوں کو بھی نبھاتا ہے۔ جو لوگ بیمار، بوڑھے اور کمزور ہیں انہیں گھر میں ہی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم انمشورے کو سنجیدگی سے لیں کیوں کہ ہماری زندگیوں اور ہمارے عزیزوں اور ہم وطنوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔