سیاسی تبدیلی کی ہوائیں۔۔۔

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، ایک طرف اپوزیشن حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری کررہی ہے تو دوسری جانب حکومتی صفوں میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سیاسی مبصرین کی توجہ اسلام آباد کی طرف مبذول ہو گئی ہے کہ آیا وزیر اعظم ان سیاسی چیلنجز سے کیسے نمٹیں گے اور کیسے صورتحال کو قابو کرنے میں کامیاب ہونگے۔

پی ٹی آئی کو کل ایک دھچکا یہ بھی لگا ہے کہ ناراض رہنما علیم خان جہانگیر ترین کے گروپ میں شامل ہوگئے ہیں اور انہوں نے 40 کے قریب رہنمائوں کی حمایت کا اشارہ دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں ایک فارورڈ بلاک مؤثر طریقے سے تشکیل دیا گیا ہے جو عدم اعتماد کی تحریک لانے کی صورت میں صوبائی حکومت اور ممکنہ طور پر وزیر اعظم پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اب حکومت اصل توجہ اس بلاک کو راضی کرنے پر مرکوز ہوگی اور وزیر اعظم نے معاملات کو حل کرنے کے لیے قریبی معتمد گورنر سندھ کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔یہ قیاس آرائیاں بھی عروج پر ہیں کہ علیم خان کی نظریں وزیر اعلیٰ کے عہدے پر ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا نئے بننے والے فارورڈ بلاک کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو گرانے اور علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے کیلئے حمایت حاصل بھی ہے یا نہیں کیونکہ یہ یقیناً اپوزیشن کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) وزیراعلیٰ پنجاب کاعہدہ مسلم لیگ (ق) کے مضبوط رہنما پرویز الٰہی کو دینے کے موڈ میں نہیں ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ علیم خان کی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا عمران خان خود کو بچانے کے لیے اپنے وفادار ساتھی عثمان بزدار کی قربانی دینے کو تیار ہیںیانہیں۔

یہاں بات بھی واضح ہے کہ جب سے عثمان بزدار سب سے بڑے صوبے کی قیادت کے لیے حیران کن انتخاب کے طور پر ابھرے ہیں، تب سے یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ وہ کب تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔عثمان بزدار کو وزیراعظم کی حمایت حاصل تھی اور وہ اقتدار میں رہے لیکن اب انہیں سیاسی قربانی کا بکرا بنائے جانے کے امکانات ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد حریفوں کے ساتھ حلیفوں کو بھی ناراض کیا۔جہانگیرترین اور علیم خان نے پارٹی کے عروج میں اہم کردار ادا کیا لیکن آخر کار انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ اب وہ اس حکومت کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہیں۔

اگر وزیر اعظم اس سیاسی طوفان کا مقابلہ کرکے اپنی مدت پوری کرتے ہیں تو یہ ان کی بڑی فتح ہوگی اور بغاوت کرنے والے سیاسی رہنماؤں کیلئے کے مستقبل کیلئے ہمیشہ کیلئے سوالیہ نشان لگ جائیگا۔

Related Posts