نگراں وزیراعظم نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اوراسی جماعت کے دیگر قید رہنماؤں کی موجودی کے بغیر بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہو سکتے ہیں، جبکہ اس کے بر خلاف عبوری حکومت نے بار بار یہ دعوے کیے ہیں کہ وہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد میں سہولت فراہم کرے گی اور کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔
یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور عمران خان پچھلے ایک سال کے دوران سیاسی صورتحال میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے باوجود کافی مقبول ہیں۔ اس حقیقت کے علی الرغم اگر پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا تو یہ بات واضح ہے کہ انتخابات کی ساکھ پر شکوک پیدا ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ انتخابات کے دوران یکساں آزادانہ ماحول میں حصہ لیں اور مہم چلائیں اور سب کو برابری کا میدان میسر آئے۔
دوسری سیاسی جماعتیں جیسے پی پی پی اور مسلم لیگ ن بھی انتخابات سے قبل برابری کا میدان فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پچھلی پی ڈی ایم حکومت نہ صرف عمران خان کو ہٹانے میں اپنے دستوری کردار کے بعد پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی نگاہ میں بڑی مبغوض ٹھہری، اس پر مستزاد پی ڈی ایم حکومت معاشی مسائل کو قابو کرنے میں ناکامی کے باعث عوامی سطح پر بھی بہت غیر مقبول ہوگئی۔ اب جبکہ عبوری حکومت چل رہی ہے، تو سابق حکمران اتحادی جماعتیں انتخابات سے قبل باہم دست بہ گریباں دکھائی دیتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے 21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا ہے، مگر سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ان کی واپسی اب بھی مشکوک ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ شہباز شریف ایک ماہ سے زائد عرصے تک لندن میں رہ کر واپس آئے لیکن اپنے بھائی کے لیے ’اہم پیغام‘ دینے کے لیے ایک ہی دن میں واپس لندن پدھار گئے۔ اگلے انتخابات میں ن لیگ کو کوئی موقع مل رہا ہے تو نواز شریف کی واپسی ضروری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مشکل چیلنج کا سامنا ہے۔