سال 2019 کا سورج تلخ وشیریں یادیں لے کر رخصت ہوگیا، پاکستان کے مختلف شہروں میں لوگوں نے سال کے آخری سروج غروب کادلفریب نظارہ کیااور نئے سال میں ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔سال 2019 ء حکومت کیلئے کچھ اچھی تو کئی ناخوشگوار یادیں چھوڑ کرگیا۔
پاکستان کے قیام سے اب تک ملکی سیاست میں بہت سے نشیب و فراز آئے، کبھی جمہوری حکمرانوں نے حکومت کی تو کبھی ملک کو فوجی آمریت بھی سہنا پڑی۔
پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے جہاں سیاسی جماعتوں نے کردار ادا کرنے کی کوشش کی وہیں آمر بھی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کرتے نظر آئے۔ سال 2019ء میں حکومت کو لاتعداد چیلنجزکا سامنا رہاتاہم پی ٹی آئی حکومت نے سال 2020ء کو ترقی کا سال قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کاکہنا ہے 2020 پاکستان کی ترقی کا سال ہوگا، مدینہ کی ریاست پہلے دن ہی نہیں بن جاتی، دنیا میں میرٹ پر قائم کیا گیا نظام کامیاب ہوتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتیں عوام کی نہیں اپنی خدمت کرنے آئی تھیں لیکن ہم ملک میں میرٹ کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نیا پاکستان نئی سوچ کا نام ہے اور عوام کی خدمت کر کے ہی ملک کو عظیم بنایا جاسکتا ہے جبکہ دیکھا جائے توحکومت کی جانب سے کاوشوں کی بدولت ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے تاہم عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، مہنگائی دوگنا سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے 2019ء کو معاشی بدحالی اور مطلق العنانیت کا سال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ناقابل برداشت مہنگائی کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ملک میں کردار کشی ،الزام تراشی بد زبانی، بد اخلاقی کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا۔
2019ء میں ایسا محسوس ہوتا رہا کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے ہی پیدا کردہ ایک بحران سے نکل نہیں پاتی کہ اپوزیشن کو تنقید کا موقع فراہم کرنے کے لئے خود ہی دوسرے کسی بحران کو جنم دے دیتی ہے۔اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت پورا سال تنازعات میں الجھی رہی۔
پی ٹی آئی حکومت میں آنے سے پہلے کئے گئے وعدوں پر پورا اترنے میں تاحال تو ناکام دکھائی دیتی ہے۔ روزگاری کی فراہمی کا خواب دکھانے کر ووٹ لینے والوں نے روزگاردینے سے صاف انکار کرکے نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔
نوزائیدہ حکومت نے اپنی ناتجربہ کاری کا ثبوت دیتے ہوئے قومی و عالمی معاملات پر موقف تبدیل کرنے کی شرمناک مثال قائم کی۔ موجودہ حکومت میں شامل ماسوائے چند کے تقریباً تمام وفاقی وزراء پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر حکومت کا حصہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان کو کچھ ایسے اقدامات کرنا پڑے جو ان کے برسوں میں کیے گئے اعلانات اور بیانات سے متصادم تھے۔
قرضہ نہیں لوں گا، پیٹرول، گیس، بجلی سستی کروں گا،میٹرو بس نہیں بناؤں گا،ڈالر مہنگا نہیں کروں گا،ہندوستان سے دوستی نہیں کروں گا،ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دوں گا،سیکورٹی اور پروٹوکول نہیں لوں گا،وزیراعظم کو لائبریری اور گورنر ہاؤس پر بلڈوزر چلاؤں گا ،بیرون ملک دورے نہیں کروں گا،عام کمرشل فلائٹ میں جاؤں گا،ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر جاؤں گا ،مختصر کابینہ بناؤں گا،جس پر الزام ہوگا اسے عہدہ نہیں دوں گا،جو حلقہ کہیں گے کھول دوں گا۔ یہ وہ اعلانات تھے جن میں سے ایک پر بھی عمران خان تاحال عملدرآمد نہیں کرپائے۔
حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے سے انتہائی بردباری کے ساتھ نمٹ کر ملک میں انارکی کے حوالے سے پھیلی افواہوں کو گلا تو خوش اسلوبی سے گھونٹ دیا تاہم نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے معاملے میں کابینہ کی شرائط پر حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے پر قانونی سقم نے حکومت کی رسوائی کاسامان کیا اور احتساب کے نعرے پر قائم حکومت نے سال کے آخر میں نیب آرڈیننس پیش کرکے جگ ہنسائی کو جواز پیدا کرلیا،نیب آرڈیننس کے ذریعے درحقیقت اپنوں کو نیب کے شکنجے سے باہر نکالا گیا ۔
پی ٹی آئی حکومت پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بجائے آرڈیننسز کے ذریعے ملکی معاملات چلانے کی کوشش کررہی ہے جو کہ ممکن نہیں ہے کیونکہ آرڈیننس نوئے روز بھی تحلیل ہوجاتا ہے تاہم حکومت پھر بھی پارلیمان میں قانون سازی پر سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
حکومت پارلیمان کو عزت دے اور آرڈیننسز کے بجائے قانون سازی کو ترجیح دے اورحقیقی تبدیلی وترقی کیلئے عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرے اورمہنگائی میں کمی کیلئے اقدامات اٹھائے،لنگر اور پناہ گاہیں کھولنے سے عوام کو وقتی ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔