کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ امن معاہدہ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اس وقت چاروں اطراف سے مسائل کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے اور مشکلات کے انبار ہیں کہ مستقبل قریب میں کم ہوتے دکھائی نہیں دیتے ایسے میں اگر ملک کے حالات امن کی طرف جاتے ہیں تو یہ خوشگوار ہوا کا ایک جھونکے سے کم نہ ہوگا۔

اس وقت پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان سیزفائرکی غیر مصدقہ اطلاعات مشکلات کی گھڑی میں مردہ روح میں دم پھونکنے کے متراد ف سمجھی جائیگی۔

کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے مشروط سرنڈر کرنا درست ہے یا نہیں اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں پہلے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور اگر ہم افغانستان کو بھی اپنا دشمن بنالیتے ہیں تو یہ دانائی والی بات نہیں ہے۔ اس بات کا ہمیں بخوبی ادارک ہے کہ افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔

کالعدم تحریک طالبان 2002 میں وجود میں آئی اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ پانچ سال میں 2007 تک 13 گروہوں نے اس تنظیم کی اطاعت کرلی اور یہ وہ 13 گروپس ہیں جو شدت پسندی کے حوالے سے اپنا ایک طویل پس منظر رکھتے ہیں اور 2008 میںان تمام گروہوں نے بیت اللہ محسود کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔

ماضی میں ہم نے دیکھا کہ یہ کالعدم گروپ بارود سے بھری گاڑیاں اڑادیتے تھے اور روزانہ درجنوں زندگیاں چھین لی جاتی تھیں لیکن نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کیخلاف آپریشن میں ہماری فورسز نے انتھک کاوشوں اور قربانیوں کی بدولت دہشت گردی کا خاتمہ کرکے امن بحال کیاگوکہ اس کا اعتراف بین الاقوامی لحاظ سے اس طرح نہیں کیا گیا جیسے ہونا چاہیے تھا لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس سخت آپریشن میں ہماری فورسز کی کامیابیاں ناقابل فراموش ہیں۔

یہ ضرور ہے کہ دہشت گردی مکمل ختم نہیں ہوئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم دوبارہ دہشت گردی کے طوفان کے متحمل ہوسکتے ہیں یا امن کے قیام کیلئے قومی اصولوں پرسمجھوتے کیلئے تیار ہیں؟۔کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ بات چیت سراج الدین حقانی کے زیر اثر جاری ہےاور اس طرح کی بااثر شخصیات جب بات چیت کا حصہ بنتی ہیں تو مفاہمت کے نتائج ضرور برآمد ہوتے ہیں۔

ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان دونوں ملکر افغانستان میں غیرملکی قوتوں کیخلاف نبردآزما رہے ہیں اور دونوں نے  افغانستان کیلئے ملکر قربانیاں دی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے قیدیوں کی رہائی کے وقت پاکستان کے اصرار کے باوجود 8سو سے زائد قیدیوں میں سے مطلوبہ قیدیوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا۔

یہ درست ہے کہ پاکستان اپنے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے ہی کالعدم تحریک طالبان کو رعایت دے سکتا ہے یااعلیٰ عدلیہ ہی ایسی رعایت پر چم پوشی کرسکے گی اور کوئی ازخودنوٹس تو نہیں لے گی یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس چیز کا بھی احتمال ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے معاہدے سے انکاری کی وجہ سے افغان طالبان بھی پاکستان سے بدظن ہوسکتے ہیں۔

افغانستان میں عدم استحکام کے پوری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس سے خطہ اورپاکستان بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

دنیا کی طرف سے افغان طالبان کو اب تک تسلیم نہ کرنے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، ایک جغرافیائی سیاسی صورتحال ہوسکتی ہے جس کا روح رواں امریکا ہے اور خطے میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے امریکا کی خواہش ہوگی کہ افغانستان میں کسی حد تک عدم استحکام کی فضاء کو قائم رہے تاکہ چائنہ افغانستان پر ابھی مربوط اثر قائم نہ کرسکے اور نہ ہی سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک افغانستان کے غیر مستحکم ہونے کی صورت میں کالعدم تحریک طالبان، داعش اور دیگر گروہ مزید متحرک ہوکر پاکستان کو گزند پہنچاسکتے ہیں اور یہی اولین وجہ ہے کہ مملکت پاکستان کے سرکردہ لوگ متذکرہ بالامعاہدے کرکے افغانستان کے ابھرتے خطرات سے بچنا چاہتے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک افغانستان کے ساتھ سیاسی تعلقات کے قیام میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں لیکن خطے کے ممالک اب تک کیوں افغانستان کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرسکے یہ ایک بڑا سوال ہے۔

پاکستان، ایران، قطر، روس اور چین کا بات چیت کے باوجود کیوں افغانستان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔اس قسم کی تاخیر نے افغانستان میں قحط سالی کی جنم دینا شروع کردیا ہے جو افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے خدشات میں اضافہ کرتا ہے۔

دنیا صرف افغان طالبان کو مورد الزام ٹھہراسکتی ہے جبکہ دوحہ معاہدے کے تحت امریکا نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے مدد کریگا تاہم یہ اب تک لیت ولعل میں پڑا ہوا ہے اور طالبان کے ہارڈ لائنراس بات پر دل برداشتہ نظر آتے ہیں۔

جس کا اشارہ طالبان قیادت کی طر ف سے ملنا شروع ہوگیا ہے۔اس نازک صورتحال میں پاکستان کی دیگر حکمت عملیوں کے علاوہ تحریک طالبان کے ساتھ معاہدہ ناصرف مجبوری بلکہ وقت کی نزاکت سمجھا جانا چاہیے۔

Related Posts