کورونا وائرس کی دوسری لہر نے پاکستان میں بڑی تیزی کے ساتھ لوگوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس وقت ملک میں کورونا کیسز کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ہزاروں لوگ اس مہلک وباء کی وجہ سے اپنی زندگیاں کھوچکے ہیں لیکن ملک میں کورونا کے حوالے سے متضاد اطلاعات کی وجہ سے پاکستان میںعام عوام اس کو اب سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔
پی ڈی ایم نے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالیں اور صرف سیاسی فائدے کے لئے بڑے پیمانے پر ہجوم کھڑا کیا۔ اس سے پارٹی کارکنوں کویہ تاثر ملا کہ حکومت اور ماہرین صحت کے حفاظتی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے مشوروں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ بیماری ہی موجود نہیں ہے یا کورونا ان کے خلاف سازش ہے۔
امریکا اس وقت کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا ملک ہے اور سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا میں یومیہ 3 ہزار سے زائد اموات ہورہی ہیں جس کے بعد امریکی صدر نے بھی اس وباء کے حوالے سے اقدامات تیز کردیئے ہیں تاہم اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سنجیدہ رویئے کی وجہ سے امریکا میں کورونا نے شدت اختیار کی۔
ہمارے سیاستدان بھی یہی کام کر رہے ہیں اور عوام کی عدم سنجیدگی کسی تباہی کا باعث بن سکتی ہے جہاں مزید لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔ جب رہنما زیادہ فکر مند نہیں ہیں تو لوگ وائرس کو سنجیدگی سے کیوں لیں گے؟ حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے لازم ہے کہ وہ سیاسی دائرہ کار طے کرنے اور لوگوں کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لئے وبائی مرض کا استعمال بند کردیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ چار فیصد لوگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لئے حزب اختلاف کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ پی ڈی ایم نے ابھی ابھی حال ہی میں لاہور میں ایک بڑا جلسہ کیا تاہم اس میں لوگوں کی تعدادپر بحث جاری ہے اس کے باوجودزیادہ تر لوگ کیسزکی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ حکمت عملی وضع کرے جو قابل عمل ہوکیونکہ کورونا کے حوالے سے حفاظتی احتیاطی تدابیر اور پابندیاں کام نہیں کررہی ہیں۔ پاکستان میں کورونا کی ویکسین کی دستیابی اور عوام تک رسائی کا ابھی کوئی وقت متعین نہیں کیا جاسکا۔
ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 40 فیصد پاکستانی ویکسین لینے سے محتاط ہیں اور اس حوالے سے کورونا ویکسین کے دوران بھی پولیو مہم میں پیش آنیوالی مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے اور اگر ہمارے رویئے یونہی غیر سنجیدہ رہے تو کورونا کی تیسری اور زیادہ خطرناک لہرکا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔