افغانستان سے انخلاء کے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں امریکی قیادت نے پاکستان کو نظر انداز کیا اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی نفی کردی ہے، امریکی صدر جوبائیڈن نے آج تک وزیراعظم عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں کیا جو دونوں فریقوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا غماز ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف حال ہی میں واشنگٹن میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے ہمراہ اپنے ہم منصب جیک سلیوان سے جامع مکالمہ کرکے آئے ہیںتاہم معید یوسف نے امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی قیادت سے رابطہ کرنے سے انکار پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے پہلے کہا تھا کہ پاکستان کسی کال کی توقع نہیں کر رہا اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر امریکا کسی فون کال کو رعایت سمجھتا ہے تو پاکستان کے پاس “دوسرے آپشنز” موجودہیں۔اگرچہ معید یوسف نے اپنے بیان کی تفصیل نہیں بتائی لیکن اشارہ یقیناً چین کی طرف تھا جس کے ساتھ پاکستان نے گہرے تعلقات استوار کیے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں میں تیزی لانا چاہتا ہے۔
امریکا کی پاکستان سے رابطہ کرنے میں ناکامی کو دوطرفہ تعاون میں سفارتی دھچکا سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ 2006 کے بعد سے کسی امریکی صدر نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دوران امریکا نے پاکستان کو سیکورٹی امداد کی مدمیں 2 بلین ڈالر کا خاتمہ کیا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا کیونکہ اس وقت امریکا کا طالبان کے ساتھ معاہدے کے لیے پاکستان پر انحصار تھا۔
سابق صدراوباما نے دو ادوار کے دوران کبھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا کیونکہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر چھاپے کے بعد پاک امریکا تعلقات خراب ہوگئے تھے۔امریکی محکمہ خارجہ نے اسلام آباد کو یقین دلایا ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان کے اہم کردار پر دوبارہ غور کرے گا۔
توقع تھی کہ پاکستان سیاسی حل کے لیے کردار ادا کرے گا لیکن امریکی خصوصی ایلچی خلیل زاد نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدہ بہت دور لگتا ہے۔طالبان ایک نئی حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے ہاتھ میں زیادہ تر طاقت ہے جبکہ کابل انہیں موجودہ نظام کے ماتحت لانا چاہتا ہے۔
امریکا پاکستان کے علاقائی کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ ہی تعلقات کو کم کر سکتا ہے۔ بھارتی بالادستی اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باوجود دونوں فریقوں کو افغان مسئلے سے آگے دیکھنا چاہیے اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانا چاہیے۔
خطے سے انخلاء کے باوجود امریکا اپنا سیاسی اثر و رسوخ کم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہے، پاکستان کی ایک الگ اہمیت ہے اورامریکا نے عملی طور پر نظر انداز کرنا جاری رکھا توہمارے پاس وہاں ’’ دوسرے آپشنز ‘‘ استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔