کہتے ہیں سیاست میں سارے دروازے بند بھی ہوجائیں تو پھر بھی ایک دروازہ (مفاہمت کا) کھلا رہتا ہے اور کوئی بھی دن اس میں آخری دن نہیں ھوتا چالیں کبھی بھی بدل سکتی ہیں قسمت کی دیوی کبھی بھی مہربان ھوسکتی ہے ،پاکستان میں سیاست ذرا منفرد قسم کی ہے جو دوسرے جنوبی ایشیائی ملکوں سے قدرے مختلف ہے ۔
ہماری 70 سالہ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو شاید قائداعظم اور ذوالفقارعلی بھٹو کے علاوہ کوئی بھی انٹرنیشنل سطح کا لیڈر ہمیں نہیں ملا ،یہ دو شخصیات پاکستان بلکہ دنیا کی بہترین سیاسی شخصیات گزری ہیں جن کے دل میں اپنی عوام کیلئے درد موجود تھا جن کی سیاست کو پوری دنیا مان گئی اسکے بعد ہمیں اسطرح کا لیڈر نہیں ملا ،ہاں البتہ بہت سے وزرائے اعظم اور صدور ہم نے گزارے ہیں۔
عمران خان نے جب حکومت سنبھالی اور ریاست مدینہ کے طرز پر اس ریاست کو بنانے کا تہیہ کیا تو اس وقت قوم کو یہی لگا کہ اب ایک اور لیڈر پیدا ھوگیا جو اپنی عوام کیلئے درد رکھتا ہے اور انٹرنیشنل سطح پر بھی اسکی قابلیت کو مانا جاتا ہے۔
عمران خان نے 126 دن کا طویل دھرنا دیکر اقتدار سنبھالا اور شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا لیکن ان کو شاید ادراک نہیں تھا کہ انہوں نے پچھلے سالہا سال سے برسر اقتدار مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن کو اپنا دشمن بنالیا ہے اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جونہی اپوزیشن کے گرد شکنجہ کسا اور الگ الگ کرکے میاں نوازشریف اور انکی فیملی آصف علی زرداری اور انکی پارٹی اراکین کیلئے جیلوں کے دروازے کھولے تو تمام اپوزیشن نے اکٹھے ھونے کا فیصلہ کرلیا۔
پچھلے کچھ ماہ سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سرد جنگ جاری ہے یہ جنگ بظاہر عوام اور ملک کیلئے لڑی جارہی ہے جس میں دونوں طرف سے یہ باور کروایا جارہا ہے کہ وہ اس ملک اور قوم کے بڑے خیرخواہ ہیں اور دوسرا دشمن ،سچ کیا ہے اس بات سے عوام کو کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ عوام کو اس بات کی کبھی فکر ہی نہیں ھوئی کہ ان کے نام کا چورن کس طرح جوش و جزبے سے پوری دنیا میں بیچا گیا۔
ہم فی الحال اس کے پس منظر میں نہیں جاتے بلکہ اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کھینچا تانی جاری ہے عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے اپوزیشن کو ہٹ لسٹ پر رکھ لیا ہے اس میں دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے قائدین پانامہ سمیت دوسرے مقدمات میں پیشیوں پر پیشیاں بھگتنے لگے جبکہ مولانا فضل الرحمن کو بڑے طویل عرصے بعد اسلام آباد چھوڑنا پڑا لہٰذا وہ بھی حکومت کی ایسی کی ایسی کرنے کیلئے اپنے حواریوں سے ملکر پلاننگ میں مصروف ھوگئے۔
ان تمام اپوزیشن کی پارٹیوں کو مولانا ایک پیج پر لانا چاہتے تھے تاکہ عمران خان کی حکومت گرائی جاسکے چنانچہ اندرون خانہ وہ پل کا کردار ادا کرنے لگے اور بالاخر وہ اس میں کامیاب ھوگئے اپوزیشن کی تمام پارٹیز متفق ھوگئیں 20 ستمبر کی ڈیٹ رکھی گئی کہ اب سب اسلام آباد میں سجے گا یہ تمام سیاسی پارٹیاں اور رہنما عمران خان کیخلاف اکٹھے ھونے جارہے تھے حالانکہ سالہا سال سے یہ ایکدوسرے کو چور اور ڈاکو کہتے آئے تھے لیکن جیسے ہی ان کے گرد قانون کا شکنجہ ٹائٹ ھوا یہ سب اکٹھے ھوگئے اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرلیا۔
آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی پیپلزپارٹی کو دی گئی لہٰذا تمام اپوزیشن کی جماعتوں کو خطوط لکھے گئے اور انہیں مدعو کیا گیا دوسری طرف تحریک انصاف چونکہ اپنے منشور کے مطابق ڈلیور نہ کر پائی اور جو عوام سے وعدے کیے گئے تھے ان کی تکمیل نہیں ھوئی بلکہ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کی شرح میں اضافہ ھوا ۔
ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا جبکہ ان دو سالوں میں پچاس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے،مہنگائی کی شرح میں بھی ھوشربا اضافہ ھوا پچاس لاکھ گھروں کی تکمیل بھی نامکمل تھی اندورن خانہ کرپشن میں بے انتہا اضافہ ھوا یعنی جو کرپشن پچھلے ادوار میں منظم تھی وہ اب سرعام ھورہی تھی ادارے آؤٹ آف کنٹرول تھے کسی بھی ادارے پہ حکومت کی گرپ نہیں تھی ۔
نااہلیت کا یہ عالم تھا کہ محض دو سال میں پانچ آئی جی تبدیل ھوگئے لہٰذا ان کوتاہیوں کو مدنظر رکھتے ھوئے اپوزیشن کو پورا یقین تھا کہ وہ یہ حکومت گرانے میں کامیاب ھوجائیں گے دوسرا مسلم لیگ ن کا بیانیہ بالکل مقتدر حلقوں کیخلاف سخت ھوچکا تھا جس کا وہ برملا اظہار کرچکے تھے لہٰذا موجودہ اے پی سی عمران خان سے زیادہ نادیدہ قوتوں کیخلاف کرنی تھی بالاخر وہ دن آپہنچا اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں پنڈال سج گیا اور پھر گلے شکوؤں کی ایک لمبی فہرست شروع ھوگئی ۔
میاں نوازشریف نے خلائی مخلوق کو نام لیکر تنقید کا نشانہ بنایا اور عالمی سطح پر یہ میسج دیا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے اعلامیہ جاری ھوا جس میں سب سے پہلے عمران خان سے مستعفی ھونے کا کہاگیا اور ملک میں فی الفور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیاگیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان کا یہ مطالبہ نہ مانا گیا تو جنوری میں اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا گیا اور آخری آپشن کے طور پر اسمبلیوں سے استعفوں پر بھی غور کیاگیا۔آل پارٹیز کانفرنس میں یہ بھی مطالبہ کیاگیا کہ اپوزیشن پر ھونیوالے مقدمات ختم کیے جائیں اور گرفتار ھوئے تمام رہنماؤں کو بھی آزاد کیا جائے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمن کی تقریر نشر ھونے سے روک دی گئی جس کا مولانا نے بلاول سے گلہ بھی کیا۔ مولانا فضل الرحمن اس دفعہ بھی کیا استعمال ھوگئے تھے؟ دوران تقریر بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی تقریر کی پرچیاں مکس ھوگئیں جس کی وجہ سے اچانک کھلبلی سی مچ گئی۔کانفرنس ھوگئی سب اپنی اپنی جگہ بہت خوش تھے۔اداروں کو پریشر میں لیکر اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے کوشش کی گئی لیکن شاید وہ بھول گئے تھے کہ جو تین دفعہ اقتدار میں لاسکتے ہیں وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔
ان سب کے الگ الگ مقاصد تھے یہ کانفرنس دراصل ایکدوسرے کو استعمال کرنے کیلئے بلائی گئی تھی ،اس کانفرنس میں موجود ہر پارٹی دوسری پارٹی اور ہر فرد دوسرے فرد کو استعمال کررہا ہے ۔نوازشریف اور مریم نواز جارحانہ اننگ کھیلنا چاہتے ہیں جبکہ شہبازشریف ٹیسٹ میچ کھیلنے کے موڈ میں ہیں ،باپ بیٹی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت چھوٹے میاں کو بھی کلین بولڈ کروانا چاہتے ہیں۔
آصف زرداری جوکہ ہمیشہ گہری چالوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اب بوڑھے ھوچکے ہیں وہ نوجوان بلاول کیساتھ ملکر زندگی کی آخری اور بلاول پہلی اننگ کھیلنا چاہتے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن 22 نمبر بنگلے پر نظریں جمائے ھوئے ہیں ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے اسمبلی پہنچ جائیں اور دوبارہ ان کو وہی پروٹوکول ملنا شروع ھوجائے۔
الغرض یہ سب ایکدوسرے کو استعمال کرتے ھوئے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کانفرنس چوں چوں کا مربہ ثابت ھوئی ہے بہت سے سیاستدان شاید اب دوبارہ کبھی اقتدار کے مزے نہ چکھ سکیں۔فوج کی طرف سے اس کانفرنس اور میاں صاحب کی تقریر کا جواب آچکا ہے جس میں سیاستدانوں سے کہاگیا کہ فوج کو کسی بھی معاملے میں نہ گھسیٹا جائے فوج کو جب بلایا جاتا ہے فوج تب آتی ہے لہٰذا کسی بھی معاملے میں اس کا نام استعمال نہ کیا جائے۔
مستقبل میں اگر اپوزیشن کا رویہ یہی رہتا ہے تو پھر یہ ملک صدارتی نظام کی طرف جائے گا جس میں قومی حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ پارلیمانی نظام تقریباً ختم ھوچکا ہے لہٰذا اپوزیشن کے اس رویے کے بعد نادیدہ طاقتیں آئندہ کسی کو اسطرح مضبوط نہیں کریں گی کہ وہ انہیں ہی آنکھیں دکھانا شروع کردے اپوزیشن کو جارحانہ رویے کی بجائے نرم رویہ رکھنا ھوگا اور مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ھوگا تاکہ پاکستان کی ترقی ممکن ھو ۔
باریاں آتی جاتی رہتی ہیں ایسی صورتحال پیدا نہیں کرنی چاہئے کہ ہیڈ کوچ اور کپتان آپ کو سلیکٹ ہی نہ کرے ،وہ آپ کو بارہویں کھلاڑی یا ریلو کٹے کے طور پر لے۔متحدہ اپوزیشن کو میاں شہبازشریف کی پالیسی کو آگے بڑھانا ھوگا ورنہ ٹائیں ٹائیں فش۔دوسری طرف تحریک انصاف اور عمران خان کو خیالی دنیا سے باہر آنا ھوگا اور پریس کانفرنسوں اور کابینہ اجلاسوں کی بجائے زمینی حقائق کو دیکھنا ھوگا کیونکہ مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کا جینا محال کردیا ہے ۔
اگر آپ ڈلیور نہ کر پائے تو آپ کا حال ماضی کے حکمرانوں سے بہت برا ھوگا کیونکہ عوام کو آپ ہی نے سارے رستے بتا دیے ہیں اور ان کی آنکھیں کھول دی ہیں وہ آپ کا ہنر آپ ہی پر آزمائیں گے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ خلوص نیت سے عوام کی خدمت کی جائے تاکہ جب بھی انتخابات کا ذکر ھو تو عوام بلے کو نہ بھولے تحریک انصاف کو دوبارہ اقتدار میں لے آئے دو سال گزر چکے آپ کے پاس آخری دو سال ہیں آپ نے ان دو سالوں میں اگر عوام کی توجہ حاصل نہ کی تو پھر آپ بھی قصہ پارینہ بن جائیں گے ابھی وقت ہے سنبھل جائیں اور عوام کے دکھ درد دور کریں اور عوام سے کیے ھوئے واعدے پورے کریں۔