آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا کی تمام تر توجہ اسرائیل ایران کشیدگی پر۔ ادھر غزہ بھوکا پیاسا مر رہا ہے۔ غزہ میں اب جان لینے کے لیے راکٹوں کی ضرورت نہیں۔ یہاں موت کا سامان آٹا اور پانی بن چکا ہے۔ پانی اور روٹی جو کبھی زندگی کی علامت تھے، اب زندگی کا گلا گھونٹنے والا خاموش ہتھیار بن چکے ہیں۔ یہاں آٹے کا حصول جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ سنگین بلکہ اک ایسا خواب بن چکا ہے، جسے شرمندۂ تعبیر کے لیے خون کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

اندازہ لگا لیجیے ذرا…. آٹے کی قیمتیں شدید قلت اور مسلسل محاصرے کے باعث غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہیں۔ موجودہ قیمتیں: 25 کلو کا تھیلا 700 سے 750 شیکل (یعنی فی کلو تقریباً 30 شیکل) ہے۔ گویا ایک کلو آٹا 50 سے 55 شیکل (تقریباً 14 امریکی ڈالر) کا بکتا ہے۔ بعض علاقوں میں ایک تھیلا 500 ڈالر تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ یعنی 20 ڈالر (5560 روپے) کا ایک کلو۔ بعض خاندان طاقتور گروپوں یا رابطوں کے ذریعے مخصوص قیمت پر آٹا حاصل کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے ذریعے آنے والا آٹا بھی محدود مقدار میں دستیاب ہے اور اس کی تقسیم پر شدید دباؤ ہے۔ یہاں فاقہ کشوں کے لیے ایک ڈالر کا حصول بھی محال ہے۔ ایک کلو کے لیے 20 ڈالر کہاں سے لائیں۔ اس لیے فاقہ کش اہل غزہ جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے امداد تقسیم کرنے والے پوائنٹس کا رخ کرتے ہیں تو وہاں اسرائیل ٹینکوں سے فائر کھول دیتا ہے۔ آج 14 واں روز ہے، کوئی ایک دن ایسا نہیں گیا کہ آٹے کی تقسیم کے موقع پر اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کی تعداد 40 سے کم رہی ہو۔ غزہ میں آسمان سے نہیں، اب زمین سے بھی موت برستی ہے۔ یہاں اب صرف جنگی طیارے ہی نہیں، بلکہ امدادی مراکز کے باہر لگی قطاریں بھی موت کا پیغام بن چکی ہیں۔ ہر روز ہزاروں فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے آٹے یا خوراک کے کسی ایک پیکٹ کی تلاش میں خطرہ مول لے کر گھروں سے نکلتے ہیں، جب کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی محاصرے اور تباہی کے باعث یہ سفر اکثر زندگی اور موت کے بیچ ایک داؤ پر ہوتا ہے۔
آٹے کے حصول کے لیے اب تک 390 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔2,850 سے زائد زخمی اور 9 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ یہ سب صرف امدادی اشیاء کے حصول کی کوشش کے دوران پیش آنے والے واقعات ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیلی فورسز امدادی مراکز کو اہل غزہ کو شکار کرنے کے لیے جال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور فلسطینیوں کے لیے روٹی تک رسائی بھی خون کا سودا بن چکی ہے۔
28 سالہ نوجوان نوجوان فادی محمد کا کہنا ہے: “میں کئی بار موت کو قریب سے دیکھ چکا ہوں صرف آٹے کی تلاش میں۔ ایک بار بھگدڑ کے دوران میرے اوپر لوہے کا جالی دار دروازہ گر پڑا اور میرا دوست میری آنکھوں کے سامنے مر گیا۔ میں خود بے حس و حرکت پڑا رہا، مار کھاتا رہا، سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ایک اور موقع پر، جب میں نے تھوڑا سا آٹا حاصل کیا، تو ایک شخص نے مجھے چاقو دکھا کر سب کچھ چھین لیا۔ میں اکیلا نہیں تھا، وہاں ہزاروں لوگ تھے، سب اس امید میں کہ کوئی گولی یا راکٹ نہ آن ٹپکے۔ جس کے ہاتھ کچھ آ جائے، وہ یا تو چاقو کے زور پر بچاتا ہے یا لوٹ لیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ خالی ہاتھ اور زخموں سے چور ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ غزہ میں بھوک اور قحط کو اسرائیل نے ہتھیار بنا دیا ہے۔ امدادی مراکز اب پناہ نہیں بلکہ میدانِ جنگ بن چکے ہیں۔ انسانیت کی یہ تذلیل عالمی ضمیر کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔”
امدادی قافلے زندگی نہیں، موت کا جال بن چکے:
غزہ کی محصور پٹی میں پہنچنے والی قلیل امداد، جو کسی وقت زندگی کی امید سمجھی جاتی تھی، اب موت کا جال بن چکی ہے۔ اسرائیلی قابض فوج نہ صرف امدادی مراکز کے آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بناتی ہے، بلکہ وہاں جرائم پیشہ گروہ اور مسلح لٹیرے بھی موجود ہوتے ہیں، جو شہریوں پر حملہ کر کے ان سے امداد چھین لیتے ہیں۔
“زندگی کی جنگ” یا “بھوک کا کھیل”؟
اقوامِ متحدہ کی ایجنسی “اونروا” کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے موجودہ حالات کو “زندگی و موت کے بیچ بھوک کا خونی کھیل” قرار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے امریکی حمایت سے امدادی تقسیم کے نئے قواعد لاگو کیے ہیں، جن کے تحت زیادہ تر امداد صرف ان علاقوں میں دی جاتی ہے جو اسرائیلی کنٹرول میں ہیں۔ ان مقامات کو اسرائیلی فوجی، ڈرونز اور خفیہ اہلکاروں کے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں اور یوں وہ مدد کے بجائے موت کے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اندھیرے میں قطار، واپسی کی گارنٹی نہیں:
غزہ کے الشجاعیہ علاقے سے تعلق رکھنے والے خلیل عبد الباری کہتے ہیں: “میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آدھی رات کے بعد اپنے بستر سے نکل کر صرف ایک روٹی کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا، مگر ہم غزہ میں ہیں اور یہاں یہ خطرہ ہی زندگی کا واحد راستہ ہے۔ ہم اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔”
روزگار ختم، بھوک راج:
مارچ 2025 سے محاصرہ مزید سخت ہونے کے بعد غزہ کی اکثر آمدنی کے ذرائع بند ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد جو روزانہ کی اجرت پر کام کرتے تھے، مکمل طور پر بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ بازاروں میں کچھ اشیاء دستیاب ہیں، لیکن قیمتیں عام شہری کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہیں، یہاں تک کہ تنخواہ دار طبقہ بھی گزارہ نہیں کر پا رہا۔
آج غزہ میں ایک ہی حقیقت ہے، تمام شہری طبقے خوراک کے لیے مکمل طور پر امدادی قافلوں پر انحصار کر رہے ہیں اور یہی قافلے اب سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور اداروں کا شدید ردعمل:
غزہ میں انسانی بحران نے ایسا بھیانک رخ اختیار کر لیا ہے کہ انسانی وقار کا تصور بھی مٹ چکا ہے۔ ہر روز ہزاروں فلسطینی خوراک کے حصول کی امید لیے امدادی مراکز کے باہر قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں، مگر وہاں ان کے نصیب میں گولیاں، دھکے، اور موت لکھی جاتی ہے۔
“ہم امداد کے در پر گداگر بن چکے ہیں”
حسن ابو راجی، جو غزہ کے الشاطئ کیمپ کی ایک متروک اسکول کے باہر بیٹھا ہے، دل گرفتہ انداز میں کہتا ہے: “پہلے ہم امداد کو امید کی کرن سمجھتے تھے، مگر اب ہم بھوک کے دروازے پر گداگر بن گئے ہیں، جہاں ہمارے پاس عزت بھی نہیں، حفاظت بھی نہیں۔ دشمن کے گولیوں اور اندرونی غداروں کی دھوکہ دہی کا سامنا ہے۔”
کشت و خون کا “امدادی ماڈل”
اقوامِ متحدہ کی ایجنسی اونروا نے امداد کی تقسیم کے موجودہ اسرائیلی، امریکی ماڈل کو “تباہی کا نسخہ” قرار دیا ہے۔ اونروا کے مطابق، امداد کی تقسیم ہتھیار بن چکی ہے، امدادی مراکز فوجی اہداف میں تبدیل ہو چکے ہیں، وہاں جانے والے شہری اکثر لاپتا، زخمی یا شہید ہو جاتے ہیں، 130,000 ٹن سے زائد امدادی سامان اسرائیل کی جانب سے بارڈر پر روک لیا گیا ہے۔
امجد الشوا، جو غزہ میں غیر سرکاری تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہیں، کا کہنا ہے: “یہ مراکز انسانی ہمدردی کے بجائے قتل کے میدان بن چکے ہیں۔ جو شخص تھوڑے سے کھانے کی امید لے کر جاتا ہے، وہ لاش کی صورت واپس آتا ہے۔” انہوں نے عالمی برادری اور فلسطینی قیادت سے فی الفور مؤثر اقدامات کی اپیل کی ہے تاکہ امداد کو محفوظ، باعزت اور منظم طریقے سے مستحقین تک پہنچایا جا سکے۔ محاصرہ ختم کیا جائے۔ تمام رکا ہوا امدادی سامان فوری طور پر داخل کیا جائے اور اقوامِ متحدہ کو آزادانہ امداد کی تقسیم کا اختیار دیا جائے۔

Related Posts