مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب انسان عمر کی نسبت سے چالیس کی حدا عبور کرتا ہے تو شخصیت میں تیسری اور آخری بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔

پہلی بڑی تبدیلی کا مرحلہ بلوغ کی صورت اور دوسری بڑی تبدیلی کا دور 18 سال کا ہوچکنے پر یہ دیکھ چکا ہوتا ہے۔ عمر کے اس 40 کے بعد والے مرحلے میں پہنچ کر زندگی سے متعلق رویہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ لاابالی پن کی جگہ سنجیدگی اور چھچورپنے کی جگہ متانت لے لیتی ہے۔ ایک عجیب چیز یہ ہوجاتی ہے کہ اچانک وقت کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے۔ اور دن بدن یہ احساس قوی تر ہوتا چلا جاتا ہے کہ ساٹھ ستر برس کی عمر تو کچھ بھی نہیں، یہ تو بہت ہی قلیل ہے۔ یہ ان تبدیلیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ فیس بک وغیرہ پر آپ کو 40 سال سے زائد عمر والے لوگ بہت ہی کم دوسروں کی وال پر گند کرتے ملیں گے۔ یہ حماقتیں صرف نوجوانی کی ہوتی ہیں۔

اس عمر میں بیشتر لوگوں کو ایک سنگین بحران سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ یہ اگر اسی اصول پر کاربند رہیں کہ دوستی بس ہم عمروں کے ساتھ ہی ہونی چاہئے تو سمجھ جایئے کہ “بڈھا تباہ دے” یہ تباہی دو حوالوں سے آتی ہے۔ چالیس سے اوپر والوں کا یہ سرکل کب پہلے بور لوگوں کی انجمن اور پھر نفسیاتی مریضوں کی این جی او بن گیا، انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کیوں؟ کیونکہ ٹوٹل سنجیدگی خشکی کا دوسرا نام ہے۔ اسے مزاح کا پانی نہ ملے تو اگلا مرحلہ معتدل طبیعت کی موت ہے۔تباہی کا دوسرا حوالہ یہ ہے کہ کسی بھی زمانے کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی جدت کی ساری معلومات نوجوانوں کے پاس ہوتی ہیں۔ یہ چونکہ شعور کی دنیا میں نئے نئے داخل ہوئے ہوتے ہیں تو ہرچیز میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

اس کے برخلاف چالیس سے اوپر کی عمر میں مزاج یہ ہوتا ہے کہ ہمیں بس اسی چیز کے بارے میں جاننا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ مثلاً ایک نوجوان تو آبدوز کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے گا کہ یہ کس طرح کام کرتی ہے؟ زیر آب جنگیں کس طرح لڑتی ہے؟ اور لوگ اس میں زندہ کیسے رہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ مگر 40 سے اوپر کا شخص اس ضمن میں اس سوچ پر کاربند ملےگا کہ میرا آبدوز سے کیا لینا دینا؟ میں نے بیٹے کو نیوی میں تھوڑی بھرتی کرانا ہے۔

چالیس سے اوپر والوں کی اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ اپنے زمانے سے کٹتے کٹتےایک روز صرف گھر کے ہو رہتے ہیں۔ اور گھر پر بھی یہ سب سے کٹے ہی پائے جاتے ہیں۔ انہیں بیٹی نے جو جدید فون خرید کر دیا تھا اس کی گمشدگی پر یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ سارے فون نمبر ضائع ہوگئے۔ ایسے میں پوتا یہ بتا دے کہ ڈیٹا تو سب گوگل پر سیو ہوتا ہے تو حیرت سے ان کی آنکھیں ابل کر حلقے چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ یہ آپ کو صبح صبح نئے کپڑے پہن کر کہیں جانے کی تیاری فرما تے نظر آئیں گے۔ بہو پوچھے

“ابو جی ! آپ کہاں جا رہے ہیں؟”

تو کہیں گے

“بیٹا میں ذرا صدر جا رہا ہوں تاکہ فلائٹ کا ٹکٹ خرید لاؤں”

بہو کہے

“ابوجی ! وہ تو آپ کے موبائل پر ہی بک ہوجاتا ہے”

تو یہ سکتے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سب کیا ہے؟ کیا عقل نظروں کی طرح کمزور ہوگئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں تو بس ان چیزوں کے بارے میں جاننا ہے جو ہماری ضرورت کی ہیں۔ اور اس معاملے میں  موبائل فون تو انہیں کوئی قدیمی قبائلی دشمن لگتا ہے۔ جس بڈھے کو دیکھیں عمران خان کے بعد سب سے زیادہ موبائل فون کا ہی مخالف ملے گا۔

سو اے شکستہ دلانِ عمر! ! اگر زندگی میں رنگ بھرنے ہیں تو نوجوانوں سے دوستی  کرنا واجب سمجھئے۔ ان خبیثوں سے دوستی لگانا ہے بھی بہت آسان۔ تین چیزوں کا اہتمام کیجئے۔ یہ آپ کے دوست رہیں گے۔ پہلی یہ کہ نصیحت انہیں صرف اسی صورت کیجئے جب یہ کسی معاملے میں اپنی پریشانی آپ کے پاس لے آئیں۔ مفت کی نصیحت کریں گے تو وہ تو آپ کا سگا بیٹا بھی قبول نہ کرے، بلکہ اُلٹا فاصلہ اختیار کرلے۔ دوسری چیز یہ کہ اپنی عمر کی سطح پر بیٹھ کر ان سے ہمکلام ہونے سے گریز کیجئے۔ اپنی عمر کی سطح پر صرف اُس وقت رہئے جب کوئی بہت سنجیدہ معاملہ زیر بحث ہو۔ عام گپ شپ کے مواقع پر آپ کو ان کی عمر کی سطح پر جانا ہوگا اور یہ کوئی مشکل کام نہیں، عمر کی اس سطح سے آپ ہو آئے ہیں۔ پلٹ کر کچھ دیر کے لئے وہاں جانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ تیسری چیز یہ کہ وقتاً فوقتاً انہیں چٹ پٹی چیزیں کھلایا کیجئے۔ یہ کام تو یوں بہت ہی آسان ہے کہ اگر آپ اپنی عمر کے کسی آدمی سے پوچھیں

“کیا کھائیں گے؟”

تو وہ پہلے انکار کرے گا، پھر آپ کے اصرار پر کہے گا:

“شاہین شنواری پر جا کر کچھ ہلکا پھلکا کھا لیتے ہیں”

وہ کتنا ہلکا پھلکا کھاتا ہے یہ تو آپ کو شاہین شنواری پہنچ کر ہی پتہ چلے گا، بلکہ یوں کہئے، لگ پتہ جائے گا۔ اس کے برخلاف آپ کسی نوجوان سے پوچھئے:

“کچھ کھاتے ہیں یار ! بتاؤ کیا کھاؤگے ؟”

وہ کہے گا

“سر ! پنیر پراٹھا کھلا دیں، بہت دن ہوگئے نہیں کھایا”

کہاں آپ کے ہم عمر کا شاہین شنواری اور کہاں اس بچے کا پنیر پراٹھا۔ ہیں ناں مزے؟ انوجوانوں سے اس دوستی کا حاصل یہ ہوگا کہ آپ کی طبیعت کبھی بھی بور نہیں ہوگی، آپ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوں گے، آپ نفسیاتی مریض نہیں بنیں گے، اور آپ اپنے زمانے کی ہر جدت کے حوالے سے اَپ ڈیٹ رہیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا لوگ آپ کو “چ” نہیں سمجھیں گے۔ آپ کی سنگت سے گریز کو ترجیح نہیں دیں گے۔ اور آپ کی طبیعت کی شادابی آپ کا حوالہ رہے گی۔ آپ کی آمد پر چہرے اُتریں گے نہیں بلکہ کھِلا کریں گے۔ یہ ہر عمر میں زندہ دلی کی واحد مجرب راہ ہے۔ قبول نہیں تو اپنا یہ مقدر طے سمجھئے کہ زندہ دلوں کی مجلس میں آپ کے داخلے پر سرگوشی ہوگی، لو بڈھا پھر آگیا !

Related Posts