وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں 20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے جو بیرونی قرضوں کی ریکارڈ واپسی ہے یہ درست ہے کہ حکومت میں 20 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تو واپس کیے ہیں تاہم تحریک انصاف کے دوراقتدار میں ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے قرض تو واپس کیا ہے لیکن اس بیرونی قرض کو اتارنے کے لیے نیا قرض لے کر ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔
موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے غیرملکی کمرشل قرضوں پر انحصار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں 7اعشاریہ2 ارب ڈالرز میں سے غیرملکی کمرشل قرضہ 3اعشاریہ110 ارب ڈالرز رہا۔
اس کے علاوہ چین کے جمع کروائے گئے 1 ارب ڈالرز کی مدد سے حکومت نے رواں مالی سال میں ڈالرز کے بہائو کا نیٹ ٹرانسفر ممکن بنایا ہے۔ غیرملکی کمرشل قرضوں اور محفوظ ڈپوزٹ کی مدد سے پاکستان کو مجموعی طور پر 4اعشاریہ1 ارب ڈالرز موصول ہوئے ہیں جو کہ مجموعی بیرونی قرضوں کا 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔
اقتصادی امور ڈویژن کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 21-2020میں جولائی تا فروری حکومت کو 7اعشاریہ 208 ارب ڈالرز مختلف ذرائع سے بیرونی قرض موصول ہوا جو کہ پورے مالی سال کے سالانہ بجٹ تخمینہ 12اعشاریہ233 ارب ڈالرز کا 59 فیصد بنتا ہے،گزشتہ مالی سال 2019-20 میں غیرملکی قرض 6اعشاریہ282 ارب ڈالرز تھا جو کہ مجموعی سالانہ بجٹ 12اعشاریہ958 ارب ڈالرز کا تقریباً 51 فیصد تھا۔
پاکستان میں حکومتی نظم و نسق کا مکمل دارومدار غیر ملکی قرضوں پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ایک دن میں دو آرڈی ننس جاری کرنے کی منظوری دیدی ہے۔
ایک ٹیکس قوانین کا ترمیمی آرڈی ننس کابینہ نے منظور کیا ہے جس کے نتیجے میں 140ارب روپے کی انکم ٹیکس چھوٹ ختم کی جا ئے گی جبکہ وفاقی کابینہ نے آٹو ڈس ایبل سرنجز پر ٹیکس چھوٹ کی منظوری دی ہے۔
گردشی قرضے کنٹرول کیلئے بجلی صارفین پر 150ارب کاسرچارج لگایاجائیگااس مقصد کیئے صدارتی آرڈیننس کیلئے ضابطے کی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔
پاکستان میں تمام حکومتوں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ اندرونی و بیرونی ذرائع سے قرض لے کر اپنے بجٹ خسارے کو پورا کیا جائے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو قرضہ لینا پڑتا ہے اور قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ قرضہ کیسے خرچ ہوتا ہےاور ایک طرف جہاں حکومت قرضوں کی واپسی اور معیشت کی بحالی کے دعوے کررہی ہے وہیں قرضوں پر انحصار اور ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور بجلی، چینی اور گندم کی سرکاری قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے جس سے غریب عوام پر مزید بوجھ بڑھ جائیگا۔