آبادی کو کنٹرول اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیلئے علما مشاورتی کونسل کا قیام

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آبادی کو کنٹرول اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیلئے علما مشاورتی کونسل کا قیام
آبادی کو کنٹرول اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیلئے علما مشاورتی کونسل کا قیام

کراچی: پی ٹی آئی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان اور آبادی کے کنٹرول کے پروگرام پر عمل درآمد کرنے کیلئے علمائے کرام پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودگی میں حکومت نے علمائے کرام پر مشتمل ایک اور قومی علماء مشاورتی کونسل قائم کی۔

وزارت نیشنل ہیلتھ سروس، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن اسلام آباد کے آبادی سے متعلق  پروگرام کی جانب سے جاری ہونےو الے خط کے مطابق قومی علماء مشاورتی کونسل کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا کہ علمائے کرام سی سی آئی کی سفارشات پر عمل درآمد کرائیں۔اس قومی علماء مشاورتی کونسل کا چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کو مقرر کیا گیا ہے،ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن اور سابق رکن پاپولیشن ماہر کے علاوہ11علمائے کرام کو شامل کرکے کل 14اراکین بنائے گئے ہیں ۔

قومی علماء مشاورتی کونسل میں شامل علمائے کرام میں مفتی ضمیر ساجد، مولانا تہامی بشیر علوی، محمد جاوید حافظی، پیر شفاعت رسول، مفتی محمد زاہد، مفتی محمد زبیر، مفتی ابراہیم قادری، مولانا ڈاکٹر باچہ آغا، مولانا پروفیسر سید حبیب شاہ بخاری، مولانا محمد طیب قریشی اور مولانا ڈاکٹر عبدالرحمن خلیل شامل ہیں ۔

ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سابینہ درانی کے دستخط سے جاری کیے گئے لیٹر کے مطابق  ایف اے ٹی ایف کے احکامات ، قومی بیانئے اور قومی ایکشن پلان کی 8ویں ترمیم پر عمل درآمد کرایا جائے گا ۔اسلامی نقطۂ نظر سے قومی بیانیہ کو بھیلاناجائے گا، وفاقی اور صوبائی سطح پرآبادی میں استحکام کے لئے سیمینار منعقد کرائے جائیں گے ۔

اس کے علاوہ علمائے کرام پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے ایجنڈے کو فروغ دیں گے اور اسلامی فلسفے ، ثبوت اور جذباتیت کے ساتھ آگاہی اور مشاورت بھی فراہم کریں گے۔ اس لیٹر کی ایک ایک نقل تمام اراکین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیف ریسرچ آفیسر غلام دستگیر شاہین کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن کو بھیجی گئی ہے۔

واضح رہے کہ سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا، اس پلان کی 20 شقیں تھیں جن میں سے پہلی شق کے مطابق پھانسیوں پر پابندی ختم، دوسری شق کے مطابق دو سال کیلئے خصوصی ٹرائل کورٹس کی تشکیل، تیسری شق میں کسی بھی مسلح ملیشیا کو ملک میں کام کی اجازت نہ دینا، چوتھی شق نیکٹا کو فعال کرنا، 5ویں شق نفرت آمیز تقاریر پر پابندی، چھٹے نمبر پر دہشت گردوں کو رقوم کی فراہمی کا خاتمہ، ساتویں نمبر پر حکومت کا کالعدم تنظیموں کو دوبارہ کام کرنے سے روکنااور8ویں شق کے تحت انسداد دہشت گردی فورس قائم کرنا تھا۔

قومی ایکشن پلان کی 9ویں شق کے تحت مذہبی تشدد کیخلاف مؤثر اقدامات،10ویں شق کے تحت مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات، 11ویں شق کے تحت میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں کی تشہیر کرنے پر پابندی، 12ویں شق کے تحت فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات، 13ویں نمبر پر دہشت گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کا خاتمہ، 14 ویں شق کے تحت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال پر قابو، 15ویں شق میں پنجاب میں عسکریت پسندی کے عدم برداشت، 16ویں شق میں کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے، 17ویں شق میں بلوچستان میں سیاسی مفاہمت کیلئے صوبائی حکومت کو بااختیار بنانے، 18ویں شق میں فرقہ واریت کےخاتمہ کیلئے صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری، 19ویں شق کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے جامع پالیسی بنانے اور 20ویں شق کے تحت فوجداری نظام انصاف کی اصلاح کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھا نا شامل تھا ۔

Related Posts