پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال میں کافی حد تک عالمی معاملات کا گرداب بھی شامل ہے چاہے وہ روس اور یوکرین کی جنگ ہو یا کورونا کے بعد دنیا کی معاشی صورتحال اور بہت حد تک اس میں روس یوکرین جنگ کا بھی ہاتھ ہے جس کے باعث عالمی معیشت اس نہج کو پہنچی۔
عالمی مہنگائی کے اثرات و مضمرات پہلے کچھ حد تک اور بعد میں اپنے کرتوتوں کے سبب بہت حد تک ہماری معیشت کی تباہی کا باعث بنے، آج اگر پاکستان میں ہوشربا مہنگائی ہے اور عوام کی بڑی تعداد اپنی ضروریاتِ زندگی کو درست طور پر پورا کرنے سے قاصر ہے تو اس میں روس یوکرین جنگ کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، تو پہلے کچھ بات رو س یوکرین جنگ کی ہوجائے، اس کے بعد ملکی سیاست کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے آغاز سے ہی عسکری گروہوں کا سہارا لیا جارہا ہے اور روسی فوج کی معاونت کرنے والا ویگنر گروپ بھی انہی گروہوں میں سے ایک ہے جس کی جانب سے بغاوت کا اعلان سامنے آیا۔ جس طرح افغانستان، عراق اور دیگر ممالک کیلئے بلیک واٹر کی تخلیق کی گئی تھی، بالکل اسی طرح ویگنر گروپ کی تخلیق 2014ء میں ایک نجی کمپنی کی صورت میں کی گئی جس کے عسکری کارندے بڑھتے بڑھتے 50 ہزار تک جا پہنچے۔ لیبیا، سوڈان، شام اور مالی میں روس نے ویگنر گروپ کو خارجہ پالیسی کے ایک حصے کے طور پر بھیجا تاہم اس گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے کا عمل اس کے کافی دیر بعد یوکرین جنگ کے دوران شروع کیا۔
جب بھی کوئی اندرونی گروہ بیرونی اوراندرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے اور ان ہی کی شہ پر اپنے ہی ملک سے بغاوت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، تواس میں زیادہ تر عوامل اندرونی شگافوں کا ہوا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ویگنر گروپ کے اختلافات روس کی وزارتِ دفاع سے ہوئے تاہم روس کی طرف مارچ ویگنر گروپ نے صرف وزارتِ دفاع کیلئے شروع نہیں کیا تھا بلکہ وہ حکومت بدلنا چاہتے تھے۔ اس کے پیچھے یہ سازش کارفرما تھی کہ جواندرونی و بیرونی قوتیں جنگ لڑے بغیر روس سے اپنے من مانے اہداف حاصل کرنا چاہتی تھیں، وہ کر لیں۔
روس کی خلیجی ممالک کے حوالے سے پالیسی کافی مفید رہی ہے جس کی بدولت روس نے 25 سال میں پہلی بار اپنے جنگی بحری جہاز بحیرۂ روم میں لا کر کھڑے کردئیے۔ روس میں 90ء کی دہائی کے بعد پہلی بار بغاوت کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور جب جب بغاوت سر اٹھاتی ہے تو وہ پسماندہ یا حقوق سے محروم طبقہ بھی جا کر ان باغیوں کے ساتھ مل جاتا ہے جن کی آواز پہلے کہیں سنائی نہیں دے رہی ہوتی تھی۔ ایسے میں روسی صدر پیوٹن کو بھی کافی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، تاہم مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کے ہزاروں فوجیوں کی تربیت اور کروڑوں اربوں ڈالرز کی امداد کے باوجود یوکرین کا روس سے جنگ جیتنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ مجموعی طور پر روس یوکرین جنگ میں تاحال مغربی ممالک پر روس کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
دوسری جانب اگر پاکستان کی بات کی جائے توسابق صدر آصف زرداری،موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اورسابق وزیر اعظم نواز شریف اس وقت یو اے ای پہنچے ہوئے ہیں جہاں سے کئی خبریں سامنے آنے کی توقع کی جارہی ہے جہاں سیاسی پروفائل نہ رکھنے والے افراد کو بھی پروٹوکول دیا جارہا ہے جس کے کچھ نہ کچھ جیو پولیٹیکل اسباب ضرور ہیں جبکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں ملکی معیشت کیلئے اہم فیصلے کیے جارہے ہیں۔ حال ہی میں ایکنک نے اربوں کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے اور آئی ایم ایف سے بھی اچھی خبریں سامنے آنے کی نویدیں ملنا شروع ہوگئی ہیں، تاہم موجودہ آئی ایم ایف پروگرام منظور ہوجانے کی صورت میں بھی پاکستان ، بالخصوص اس کے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ یہ بات ہم سب جانتے ہیں۔
اگر ہم متحدہ عرب امارات میں اپنے ملک کی سرکردہ سیاسی شخصیات کی آمد اور پھر اس دوران متحدہ عرب امارات کی جیو پولیٹیکل اہمیت کی بات کریں تو ابراہم اکارڈ کے ساتھ ہی یو اے ای ایک نئے جغرافیائی منظر نامے میں داخل ہوچکا ہے۔ اگر بات کی جائے یو اے ای کی جانب سے پروٹوکول دینے کی تو متحدہ عرب امارات پرانے تعلقات کو آگے لے کر چلنے کیلئے ان پر سرمایہ کاری کرتا ہے جس میں ان کے ملکی مفادات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ایک تو بالمشافہ ملاقات کی اور پھر وقتاً فوقتاً ٹیلیفونک گفتگو میں بھی پروگرام کی بحالی پر زور دیا جبکہ دوسری جانب سعودی عرب اور یو اے ای کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو پاکستان میں 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کیلئے سنبھلے بیٹھے ہیں اور خاص طور پر اس نئے قدم کے تحت جس میں پاک فوج کی معاونت سے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کی گئی ہے۔
سرمایہ کاری کے ضمن میں جب معاہدے ہوتے ہیں تو ان میں بعض اوقات پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب کوئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو وہ اپنے مفاد کی پاسداری کا حق رکھتا ہے ، اسی طرح ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ جب بھی کوئی معاہدہ ہوتو اس کے نکات کا جائزہ لے لیں، مثال کے طور پر ریکوڈک معاہدے کی مثال ہمارے سامنے ہے جس پر پاکستان کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تو ضروری ہے کہ پاکستان تمام تر نکات کا جائزہ لینے کے بعد ہی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایسے فیصلے کرے جو سرمایہ کاری کرنے والے ممالک اور خود پاکستانی عوام دونوں کیلئے قابلِ قبول ہوں۔
ضروری ہے کہ ملکی معیشت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک کے سیاسی قائدین اپنی فیصلہ سازیوں پر نظرِ ثانی کریں اور پاکستان کے مستقبل بالخصوص نوجوانوں کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری اور اقربا پروری سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے لائحۂ عمل تشکیل دیا جائے۔ احباب حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملکی مسائل کے حل کی راہیں تلاش کریں تاکہ ملک کی نئی نسل تعمیر و ترقی کی نئی منزل کی جانب گامزن ہوتے ہوئے اورملک کا نام روشن کرتے ہوئے اپنے روشن اور تابناک مستقبل کی راہ ہموار کرسکے۔