نریندر مودی کا دورۂ امریکا

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک بار امریکا میں داخلے سے انکار کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ریاستی ڈنر کیلئے مدعو کیے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑا رہے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے نریندر مودی کو دورے کی دعوت دی اور سرخ قالین بھی بچھایا کیونکہ دونوں سربراہانِ مملکت چین کے عالمی اثر رسوخ اور بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے دفاعی و تجارتی معاہدوں پر دستخط کرنے والے تھے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک غیر معمولی بیان دیتے ہوئے یہ فریب پر مبنی تبصرہ کیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا، نہ ہی حالات کو بہتر کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔

متعدد امریکی قانون ساز اپنے صدر جو بائیڈن پر ایک خط کے ذریعے زور دے رہے تھے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملے پر آواز اٹھائیں تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن نریندر مودی کو لیکچر نہیں دیں گے۔

یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی کیونکہ وہی ہوا جس کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے۔ جب اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جائے تو انسانی وقار اور آزادیوں کی قدر و قیمت پسِ پشت ڈال دی جاتی ہے۔

گجرات نامی بھارتی ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی جب اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے، تو اسی دوران 2002ء کے مذہبی فسادات میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا جس کے باعث امریکا نے مودی کو ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

جیسے ہی وزیر اعظم کا عہدہ ملا تو بی جے پی کی بیان بازی شروع ہوئی اور پھر 2019ء میں 5 اگست کے روز مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت منسوک کرنے سمیت مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کا ایک سلسلہ منظور کر لیا گیا۔

عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت آزادئ صحافت کیلئے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ٹوئٹر کے بانی نے یہاں تک کہا کہ بھارتی حکومت نے ان کو ٹوئٹر بند کرنے کی دھمکی دی ھتی۔ پھر بھی مودی نے دورۂ امریکا کے دوران ٹوئٹر کے نئے چیف ایلون مسک سمیت دیگر کے ساتھ خوشگوار ملاقاتیں کیں۔

یہ عالمی منافقت اور دوغلے پن کا منہ بولتا ثبوت تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ سمجھا جاتا ہے اور امریکی کمپنیاں یقینی طور پر وہاں موجود اپنے گاہکوں کو ناراض نہیں کرسکتیں۔اس کے علاوہ بھی اہم باتیں رونما ہوئیں۔

مثال کے طور پر امریکا اور بھارت کے مشترکہ بیان میں پاکستان پر سرحد پار سے دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے جس کا خود پاکستان کو افغانستان کے ہاتھوں اور خود بھارت کے ہاتھوں بھی سامنا ہے، تاہم اس سے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت اور امریکا کے بیان میں پاکستان کا تذکرہ یکطرفہ، غیر ضروری اور گمراہ کن تھا بلکہ سفارتی اصولوں کے بھی منافی تھا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی اس کی مذمت کی۔

موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہوجائیں، جبکہ پاکستان کے پاس امریکا کو دینے کیلئے شاید ہی کچھ ہو۔ مودی کی ہندوتوا پر مبنی شدت پسند سیاست سے امریکا پریشان نظر نہیں آتا۔

موجودہ حالات میں عالمی برادری کیلئے کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال کرنے کی کوشش و کاوش میں مصروف ہیں جبکہ معاہدے کے اختتام کو 5ہی روز بچے ہیں۔

وفاقی حکومت کی معاشی ٹیم فنڈز اکٹھے کرنے اور ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کو اس کے معاشی مسائل نے گھیر رکھا ہے اور اس دوران آزاد خارجہ پالیسی پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ حکومت چاہتی ہے کہ ہم یقین کریں کہ ہم جغرافیائی سیاست کا شکار ہو رہے ہیں۔

امریکا کو چاہئے کہ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں سے ناروا سلوک اور کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے اور صحافتی اقدار پامال کرنے کی مذمت کرے۔ انسانی حقوق کا سبق صرف کمزور ریاستوں کو نہیں پڑھانا چاہئے بلکہ اس ہتھیار کا استعمال سب کے ساتھ ایک سا ہونا چاہئے۔ 

Related Posts