قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ایک بار میں پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ دونوں فریق اپنی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں یہ تعطل پیدا ہواہے۔ اس معاملے میں تعطل نے قومی اسمبلی کو کسی حقیقی یا تعمیری اپوزیشن سے محروم کر دیا ہے جو کہ قبول شدہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔
پی ٹی آئی کے لیے، تمام استعفوں کو قبول کروانے کے موقف پر قائم رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ ہر ایک استعفے پر غور کرتے ہوئے قواعد اور طریقہ کار کے مطابق اسپیکر کے ذریعہ اس کی سچائی کی تصدیق کرنی ہوگی۔ یہ طریقہ کار اراکین اسمبلی کو استعفے دینے سے مجبور ہونے سے روکنے کے لیے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ہچکچاہٹ اس حقیقت سے پیدا ہوئی ہے کہ شاید کچھ اراکین کے استعفے رضاکارانہ طور پر نہیں آئے، جیسا کہ پارٹی دعویٰ کر رہی ہے۔ مخصوص اراکین کے بارے میں پہلے سے ہی ایسی رپورٹس موجود ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے استعفے حقیقی نہیں ہیں اور ان کی جانب سے دستخط جعلی کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے باہر نکلنا چاہتی ہے لیکن پارٹی قیادت کو اسپیکر کے سامنے یہ معاملہ رکھنے سے پہلے اپنے گھر کو ترتیب دینا ہوگا۔ اگر یہ اپنے اختلافات کو ختم کر سکتے ہیں تو انفرادی استعفیٰ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔
پی ڈی ایم اتحاد بھی صرف سیاسی مصلحت کے اپنے مطالبے پر قائم ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کو معلوم ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان نے استعفیٰ دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہو گی اور اس طرح وہ بڑے گروپ سے ہٹ کر ہررکن سے انفرادی طور پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسپیکر عمران خان سمیت 11 قانون سازوں کے استعفے پہلے ہی منظور کر چکے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔ منظور کیے گئے 11 استعفے پی ٹی آئی کی مرکزی لیڈرشپ گروپ کا حصہ ہیں۔
دونوں فریقوں کے درمیان مسلسل ہونے والا جھگڑا انتہائی تھکا دینے کی صورتحال اختیار کرگیا ہے، اس کے نتیجے میں اہم ریاستی امور میں خلل واقع ہورہا ہے، دونوں فریقوں کو اس وقت واضح موقف اپنانے اور ملک کی خاطر اپنا کردار ادانے کی ضرورت ہے۔