پاکستان میں مشتعل ہجوم نے انصاف کرتے ہوئے ایک اور واقعے میں دو ڈاکوؤں کو ان کے انجام تک پہنچادیا، جبکہ ڈاکوؤں نے اس قبل ایک شخص کو قتل کیا تھا۔ جس کے بعد مشتعل عوام نے ڈاکوؤں کو گھیر لیا اور مار مار کر لہو لہان کردیا جس کے باعث دونوں ڈاکو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہم جرائم، چھوٹے اور گھناؤنے جرائم کے جواب میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر مشتعل ہجوم کی جانب سے انصاف کا مشاہدہ کررہے ہیں، جس کا خاتمہ ہمیں مستقبل قریب میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ کراچی میں اتوار کے روز سرجانی ٹاؤن میں دو ڈاکو ایک شخص کے گھر کے باہر پہنچے، ڈاکوؤں نے پہلے گھر کے سربراہ کے دوبیٹوں کو لوٹا اس کے بعد گھر کے سربراہ کی جانب سے مزاحمت کی گئی، جس پر ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے اسے قتل کردیا۔
جیسے ہی ڈاکوؤں نے فائرنگ کی تو بندوق سے لیس ایک اور شہری نے ملزمان پر فائرنگ کرکے انہیں نیچے گرادیا، مذکورہ واقعے کے بعد فائرنگ کی آواز سے مقامی لوگ موقع پر اکٹھے ہو گئے اور زخمی ملزمان کو قابو کرلیا، پولیس نے بتایا کہ زخمی شہریوں اور ملزمان کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ایک شہری اور دو ملزمان کو مردہ قرار دے دیا گیا۔
جرائم سے مراد چوری، ڈکیتی اور اغوا جیسے جرائم ہیں۔ یہاں ہماری بنیادی تشویش یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے جرائم کا لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور وہ ریاست اور معاشرے کے تناظر میں جو عوامی ردعمل پیدا کرتے ہیں، ہمیں اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں کراچی کی مچھر کالونی میں ایک واقعہ رونماء ہوا تھا جہاں مشتعل ہجوم نے ٹیلی کام کمپنی کے دو ملازمین کو تشدد کر کے جان سے مار دیا تھا۔
انسانوں کے معاملات کو چلانے میں ریاست اور معاشرہ کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے صورتحال کا متعدد سطحوں پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی۔ ریاست کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس طرح کا طرز عمل سماجی انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔
جرائم اور مجرموں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھا جاسکتا، لیکن ساتھ ہی مشتعل ہجوم کے انصاف کو بھی درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا اس حوالے سے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔