وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے 360 ارب روپے کا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔
مِنی بجٹ میں تقریباً 150 اشیاء پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے جن سے 343 ارب روپے سے زیادہ اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ گاڑیاں، دوائیں، ڈبل روٹی، ریسٹورنٹ کا کھانا مہنگاہوگا، بیکری آئٹمز، موبائل فون، بچوں کے دودھ، ڈبے والی دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، مٹھائی اور مسالا جات کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔
قومی اسمبلی کے سیشن میں الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس ،سرکاری جائیدادوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے سمیت متعدد آر ڈیننس میں 120روز توسیع کی قراردادیں بھی منظور کرلی گئی ہیں۔ایوان میں پیش کردہ منی بجٹ کے مطابق درآمدی نیوز پرنٹ، اخبارات، جرائد، کاسمیٹکس، کتابیں، سلائی مشین، امپورٹڈ زندہ جانور اور مرغی پر مزید ٹیکس لگے گا۔کپاس کے بیج، پولٹری سے متعلق مشینری، اسٹیشنری، سونا، چاندی، کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ بھی اس منی بجٹ کے بعد مہنگے ہوجائیں گے۔تندور پر تیار ہونے والے نان، روٹی اور شیر مال، مقامی طور پر فروخت ہونے والے چاول ، گندم اور آٹے پر بھی کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔
یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ، آصف زر داری اور بلاول بھٹو زر داری غیر حاضر رہے تاہم توقعات کے عین مطابق اپوزیشن نے منی بجٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کاکہنا ہے کہ منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی نام نہاد خود مختاری نیازی حکومت کا “مجرمانہ اور ظالمانہ اقدام ہے جبکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مزید ایک ارب ڈالر لینے کے لئے عمران خان نے منی بجٹ پیش کرکے عام آدمی کو دیوار سے لگادیاہے اور اہم بات تو یہ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کی مخالفت کر دی تاہم وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر امین الحق کے خدشات کو سنا اور وزیر خزانہ کو خصوصی کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی ہے۔
منی بجٹ کے حوالے سے سابق چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی کاکہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے بل کو منی بجٹ کہنا غلط ہے ، اس اقدام سے چھوٹ یا سیلز ٹیکس کو ایڈ جسٹ کیا گیا ،عام آدمی پر کوئی فرق نہیںپڑے گا۔
وزیر خزانہ شوکت ترین کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے تمام اشیا پر سیلز ٹیکس لگادیا جائے ،ہم نے ایسا نہیں کیا، لگژری گاڑیوں پرٹیکس بڑھارہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ دوارب کی ٹیکس چھوٹ سے کونسی مہنگائی کی سونامی آئے گی؟،منی بجٹ سے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں پڑیگا اور نہ ہی دو ارب روپے کے بوجھ سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔بل میں343ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ پر نظرثانی کی گئی ہے،پرانے کپڑوں پربھی ٹیکس نہیں لگے گا۔
وزیر خزانہ کاکہنا ہے کہ جولوگ ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس نیٹ میں لائیں گے،سیلزٹیکس ری سٹورکیا اور کوئی نئی ڈیوٹی نہیں لگائی، ہم نے کوئی چیزنہیں چھپانی،اپوزیشن کوسمجھائیں گے اورمشاورت کریں گے۔
حکومت کی جانب سے منی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانا خوش آئند ہے تاہم ادویات، ڈبل روٹی، بیکری آئٹمز، بچوں کے دودھ اور دیگر خوردنی اشیاء کی پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے بلاشبہ قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا براہ راست عوام پر پڑے گا، اس لئے حکومت ٹیکس نہ دینے والے طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات اٹھائے تاہم غریب طبقے کو مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے والے اقدامات پر ضرور نظر ثانی کی جائے اور عوام کے تحفظات کو دور کیا جائے۔