گزشتہ روز پاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ مہوش حیات کے بسکٹ کے اشتہار پر پیمرا نے پابندی عائد کردی جو آج بھی سوشل میڈیا صارفین کیلئے گفتگو کا اہم موضوع (ٹاپ ٹرینڈ) بنا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مہوش حیات کا اشتہار پاکستانی تہذیب و ثقافت کے خلاف تھا جس کی ہماری اخلاقی اقدار قطعاً اجازت نہیں دیتیں تو پھر فلمی اداکارہ کو یہ اشتہار کرنے کیلئے دیا ہی کیوں گیا اور جب یہ اشتہار آن ائیر ہوا تو پیمرا کو اس کا پتہ عوام کے شور مچانے پر ہی کیوں چلا؟ کیا ایسے اشتہارات پر نشر ہونے سے قبل ہی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی؟
آئیے، یہ تمام سوالات اور ان سے مماثل دیگر کے جوابات تلاش کرنے کیلئے سب سے پہلے یہ غور کرتے ہیں کہ اشتہار میں کیا دِکھایا گیا اور کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد اس کے اخلاقی و معاشرتی پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہیں۔
بسکٹ کے اشتہار میں قومی تہذیب کی نمائش
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہمیں پاکستان کی تہذیب و ثقافت دِکھانی ہو تو چار صوبوں کی بات کی جاتی ہے جن میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان شامل ہیں جن کی نمائندگی کی گئی۔
تقریباً 1 منٹ دورانیے کے اشتہار میں مہوش حیات بار بار ایک بسکٹ کی برانڈ کو دیس کا بسکٹ قرار دیتی ہیں جس میں موسیقی، رقص اور تہذیبوں کا تعارف، سب کچھ شامل ہے۔ نہ صرف مہوش حیات بلکہ ان کے پیچھے ایکسٹراز بھی گیت پر رقص و سرود میں مصروف نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر 60 سیکنڈز پر محیط اشتہار میں کچھ سیکنڈز ایک صوبے کو دئیے گئے اور باقی وقت اسی طرح دیگر 3 صوبوں میں تقسیم کیا گیا جس سے یہ درس دینا مقصود تھا کہ ہر صوبے کے عوام کو یہی بسکٹ کھانا چاہئے جو اِس اشتہار کا لبِ لباب کہا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اشتہار کی ویڈیو خود مہوش حیات نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی جس پر سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ساتھ جو سب سے بلند آواز اِس کے خلاف سامنے آئی وہ سینئر صحافی انصار عباسی کی تھی۔
اشتہار پر اٹھائے گئے سوالات اور سوشل میڈیا پر ردِ عمل
مذکورہ اشتہار پر سب سے پہلا اور سب سے بڑا سوال سوشل میڈیا صارفین نے یہ اٹھایا کہ کوئی بسکٹ آخر پاکستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کیسے کرسکتا ہے؟ جبکہ رقص اور ناچ گانا قومی تہذیب، اسلام اور ہماری اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔
اِس اشتہار کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلی۔ صحافی انصار عباسی نے سوال کیا کہ کیا بسکٹ فروخت کرنے کیلئے ٹی وی چینلز مجرا چلائیں گے؟ کیا پیمرا کا کوئی وجود ہے؟ کیا عمران خان اِس مسئلے پر کوئی کارروائی کریں گے اور کیا وطنِ عزیز پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا؟
بلاشبہ یہ بہت بڑے سوالات ہیں جس پر حکومت بھی حرکت میں آگئی۔ وفاقی وزیرِ پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ وزیرِ اعظم مکمل طور پر میڈیا کی اسلام مخالف باتوں کےمخالف ہیں جو تہذیب و ثقافت کے خلاف ہوں۔ پاکستان کلمۂ طیبہ پر بنا تھا جہاں ایسی بے ہودگی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مخربِ اخلاق اشتہار کے حق میں آوازیں
کچھ آوازیں اشتہار کے حق میں بھی اٹھائی گئیں۔ مثال کے طور پر فواد چوہدری نے اشتہار کے حق میں یا خلاف تو کوئی بات نہیں کی لکن نپے تلے انداز میں علی محمد خان اور انصار عباسی کو سرزنش کرنے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔
اپنے پیغام میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سوال کیا کہ آپ (یعنی انصار عباسی) اور علی محمد خان 24 گھنٹے (انٹرنیٹ پر) فحاشی کیوں تلاش کرتے ہیں؟ کوئی تخلیقی کام کر لیا کریں۔
آپ اور علی 24 گھنٹے فحاشی کیوں سرچ کرتے رہتے ہے ہیں؟ کوئ Productive کام کیا کریں https://t.co/mCrYcm883B
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 5, 2020
پنجاب کے اعلیٰ عہدیدار فیصل حسین نے کہا کہ کافی فضول اور عامیانہ سا اشتہار ہے، انصار عباسی کی گہری نظر کو داد دینی بنتی ہے کہ انہوں نے اس میں سے کوئی فحاشی ڈھونڈ نکالی ہے۔
فیصل حسین نے کہا کہ میں قربان جاؤں پیمرا کے اہلکاروں کے جنہوں نے مہوش حیات کے اشتہار پر حیاداری کے تحفظ پر ایک پرچہ بھی نکالا، کیا کیا گوہرِ نفیس ہیں پاکستان میں؟ (گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مہوش حیات کے اشتہار پر ایکشن لینے کی کم از کم پیمرا کو کوئی ضرورت نہیں تھی، نہ ہی اس میں کوئی فحاشی تھی)۔
کافی فضول عامیانہ سا اشتہار ہے , انصار عباسی کی گہری نظر کو داد دینی بنتی ہے کہ انہوں نے اس میں سے کسی فحاشی کو ڈھونڈ نکالا ہے. اور قربان میں پیمرا کے اہلکاران کے جنہوں نے اس پہ ایک پرچہ مبنی بر تحفظ حیاداری بھی نکالا ہے. کیا کیا گوہر نفیس ہیں اس مملکت میں. https://t.co/RsNJOx2ybH
— Faisal Hussain (@faisal_fareed) October 5, 2020