مہوش حیات کا اشتہار، پاکستانی تہذیب و ثقافت اور ہماری اخلاقی اقدار

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مہوش حیات کا اشتہار، پاکستانی تہذیب و ثقافت اور ہماری اخلاقی اقدار
مہوش حیات کا اشتہار، پاکستانی تہذیب و ثقافت اور ہماری اخلاقی اقدار

گزشتہ روز پاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ مہوش حیات کے بسکٹ کے اشتہار پر پیمرا نے پابندی عائد کردی جو آج بھی سوشل میڈیا صارفین کیلئے گفتگو کا اہم موضوع (ٹاپ ٹرینڈ) بنا ہوا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر مہوش حیات کا اشتہار پاکستانی تہذیب و ثقافت کے خلاف تھا جس کی ہماری اخلاقی اقدار قطعاً اجازت نہیں دیتیں تو پھر فلمی اداکارہ کو یہ اشتہار کرنے کیلئے دیا ہی کیوں گیا اور جب یہ اشتہار آن ائیر ہوا تو پیمرا کو اس کا پتہ عوام کے شور مچانے پر ہی کیوں چلا؟ کیا ایسے اشتہارات پر نشر ہونے سے قبل ہی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی؟

آئیے، یہ تمام سوالات اور ان سے مماثل دیگر کے جوابات تلاش کرنے کیلئے سب سے پہلے یہ غور کرتے ہیں کہ اشتہار میں کیا دِکھایا گیا اور کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد اس کے اخلاقی و معاشرتی پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہیں۔

بسکٹ کے اشتہار میں قومی تہذیب کی نمائش 

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہمیں پاکستان کی تہذیب و ثقافت دِکھانی ہو تو چار صوبوں کی بات کی جاتی ہے جن میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان شامل ہیں جن کی نمائندگی کی گئی۔

تقریباً 1 منٹ دورانیے کے اشتہار میں مہوش حیات بار بار ایک بسکٹ کی برانڈ کو دیس کا بسکٹ قرار دیتی ہیں جس میں موسیقی، رقص اور تہذیبوں کا تعارف، سب کچھ شامل ہے۔ نہ صرف مہوش حیات بلکہ ان کے پیچھے ایکسٹراز بھی گیت پر رقص و سرود میں مصروف نظر آتے ہیں۔

مجموعی طور پر 60 سیکنڈز پر محیط اشتہار میں کچھ سیکنڈز ایک صوبے کو دئیے گئے اور باقی وقت اسی طرح دیگر 3 صوبوں میں تقسیم کیا گیا جس سے یہ درس دینا مقصود تھا کہ ہر صوبے کے عوام کو یہی بسکٹ کھانا چاہئے جو اِس اشتہار کا لبِ لباب کہا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اشتہار کی ویڈیو خود مہوش حیات نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی جس پر سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ساتھ جو سب سے بلند آواز اِس کے خلاف سامنے آئی وہ سینئر صحافی انصار عباسی کی تھی۔ 

اشتہار پر اٹھائے گئے سوالات اور سوشل میڈیا پر ردِ عمل

مذکورہ اشتہار پر سب سے پہلا اور سب سے بڑا سوال سوشل میڈیا صارفین نے یہ اٹھایا کہ کوئی بسکٹ آخر پاکستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کیسے کرسکتا ہے؟ جبکہ رقص اور ناچ گانا قومی تہذیب، اسلام اور ہماری اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔

اِس اشتہار کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلی۔ صحافی انصار عباسی نے سوال کیا کہ کیا بسکٹ فروخت کرنے کیلئے ٹی وی چینلز مجرا چلائیں گے؟ کیا پیمرا کا کوئی وجود ہے؟ کیا عمران خان اِس مسئلے پر کوئی کارروائی کریں گے اور کیا وطنِ عزیز پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا؟

Image

بلاشبہ یہ بہت بڑے سوالات ہیں جس پر حکومت بھی حرکت میں آگئی۔ وفاقی وزیرِ پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ وزیرِ اعظم مکمل طور پر میڈیا کی اسلام مخالف باتوں کےمخالف ہیں جو تہذیب و ثقافت کے خلاف ہوں۔ پاکستان کلمۂ طیبہ پر بنا تھا جہاں ایسی بے ہودگی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مخربِ اخلاق اشتہار کے حق میں آوازیں 

کچھ آوازیں اشتہار کے حق میں بھی اٹھائی گئیں۔ مثال کے طور پر فواد چوہدری نے اشتہار کے حق میں یا خلاف تو کوئی بات نہیں کی لکن نپے تلے انداز میں علی محمد خان اور انصار عباسی کو سرزنش کرنے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ 

اپنے پیغام میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سوال کیا کہ آپ (یعنی انصار عباسی) اور علی محمد خان 24 گھنٹے (انٹرنیٹ پر) فحاشی کیوں تلاش کرتے ہیں؟ کوئی تخلیقی کام کر لیا کریں۔ 

پنجاب کے اعلیٰ عہدیدار فیصل حسین نے کہا کہ کافی فضول اور عامیانہ سا اشتہار ہے، انصار عباسی کی گہری نظر کو داد دینی بنتی ہے کہ انہوں نے اس میں سے کوئی فحاشی ڈھونڈ نکالی ہے۔

فیصل حسین نے کہا کہ میں قربان جاؤں پیمرا کے اہلکاروں کے جنہوں نے مہوش حیات کے اشتہار پر حیاداری کے تحفظ پر ایک پرچہ بھی نکالا، کیا کیا گوہرِ نفیس ہیں پاکستان میں؟ (گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مہوش حیات کے اشتہار پر ایکشن لینے کی کم از کم پیمرا کو کوئی ضرورت نہیں تھی، نہ ہی اس میں کوئی فحاشی تھی)۔ 

میڈیا قوانین اور پیمرا کا کردار

توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ میڈیا قوانین کیا ہیں؟ صرف مہوش حیات کا اشتہار ہی کیا، آج کل ٹی وی ڈراموں کے سین، ڈائیلاگز اور کہانیاں بھی زیادہ تر مخربِ اخلاق قرار دی جاسکتی ہیں جن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

وزیرِ پارلیمانی امور علی محمد خان کے مطابق اگر وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو وہاں سرے سے ایسے اشتہارات یا ڈراموں کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہئے، کجا یہ کہ وہ اشتہارات اور ڈرامے چلائے جائیں، سوشل میڈیا اس پر شور مچائے اور بعد میں پیمرا اس پر پابندی عائد کرے۔

سوشل میڈیا کا منفی استعمال 

اب ایک بات اور بھی قابلِ توجہ ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کیا ہے، یہ میڈیا نمائندگان، ٹی وی اور فلم ایکٹرز اچھی طرح جانتے ہیں اور اسے منفی سمت میں استعمال بھی کرتے ہیں۔

بسکٹ کے اشتہار کا معاملہ ہی دیکھئے، کیا فلم ایکٹریس مہوش حیات کو معلوم نہیں تھا کہ اِس اشتہار کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسا منفی شہرت حاصل کرنے کیلئے کیا گیا ہو۔ عوام کو ایسی باتوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔

دو مختلف مکاتبِ فکر 

ایک طبقۂ فکر کہتا ہے کہ جہاں بھی کوئی غلط کام ہو، اس کے خلاف آواز اٹھاؤ، پروپیگنڈہ کرو، مہم چلاؤ اور اسے ختم کرکے ہی دم لو، جیسا کہ مہوش حیات کے معاملے میں ہوا اور سوشل میڈیا صارفین نے مہم چلا کر پابندی عائد کرائی۔

دوسرا طبقۂ فکر یہاں یہ رائے رکھتا ہے کہ اگر آپ نے مہوش حیات کا نام بھی لیا تو لوگ وہ اشتہار کھول کر ضرور دیکھیں گے جس کی بات کی جارہی ہے کہ آخر مہوش حیات نے کون سا اشتہار کیا تھا؟ اس میں غلط بات کیا تھی؟

دونوں کے مقابلے میں اعتدال پسند طرزِ عمل یہ ہونا چاہئے کہ آپ برائی کی مذمت تو کریں لیکن کوشش یہ بھی ہو کہ آپ کسی متنازعہ اشتہار، ڈرامے یا ویڈیو کلپ کی تشہیر کا باعث نہ بنیں کیونکہ یہ ہماری اخلاقی روایات اور اسلام کے خلاف ہے۔ 

Related Posts