یومِ شہدائے پولیس منانے کے مقاصد اور وطن کیلئے قربانیوں کی لازوال داستان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وطنِ عزیز پاکستان اپنے قیام کے وقت یعنی 14 اگست 1947ء سے ہی اندرونی و بیرونی مسائل، جرائم اور سازشوں کا شکار ہے جن پر قابو پانے کیلئے پاک فوج کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آج تک سرگرمِ عمل ہیں جبکہ پولیس زیادہ تر ملک کے اندر ہونے والے  جرائم کے خلاف حرکت میں آتی ہے۔

پاکستان بھر میں آج یومِ شہدائے پولیس منایا جارہا ہے جس کا مقصد پولیس میں خدمات سرانجام دینے والے جوانوں، اہلکاروں اور افسران کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے وطن کیلئے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی جس میں ہر گزرتے روز کے ساتھ ایک نئے باب کا اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں جرائم اور تھانوں کے اعدادوشمار

آج سے ایک سال پہلے یعنی 2019ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان بھر میں جرائم کی شرح بے حد زیادہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے پولیس کی نفری کم پڑ گئی ہے جس کی گواہی ہر روز اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بھی ملتی ہے۔

جرائم کی مختلف اقسام میں قتل، جنسی زیادتی، ڈکیتی اور چوری شامل ہیں۔ سن 2019ء کے دوران پاکستان بھر میں 8 ہزار 153 افراد کو قتل کیا گیا۔ 10 ہزار 438 اقدامِ قتل کے جرائم ہوئے، 20 ہزار 256 اغواء برائے تاوان کے واقعات ہوئے جبکہ 1 ہزار 382 ڈکیتیاں ہوئیں۔

گزشتہ برس 18 ہزار 239 واقعات میں چھینا جھپٹی، اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیاں شامل ہیں، 7 ہزار 793 جرائم میں مویشی چوری کیے گئے  جبکہ 55 ہزار 836 واقعات میں دیگر اشیاء چرائی گئیں جن میں نقد رقم، زیورات اور دیگر سازوسامان شامل ہے۔

مجموعی طور پر 7 لاکھ 86 ہزار 339 جرائم تھانوں میں رپورٹ ہوئے جبکہ جو جرائم رپورٹ نہ کیے جاسکے، ان کی تعداد کسی کو معلوم نہیں۔ آئیے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں جرائم پر قابو پانے کیلئے ہمارے پاس کتنے تھانے ہیں۔ 

سن 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 700 سے زائد تھانے ہیں جن میں سے راولپنڈی ڈویژن میں 66، بہاولپور میں 73، ڈیرہ غازی خان میں 63، ملتان میں 108، لاہور میں 139، گجرانوالہ میں 115، فیصل آباد میں 75 جبکہ سرگودھا میں 66 تھانے موجود ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق صوبہ سندھ میں تقریباً 600 کے قریب تھانے ہیں جن میں سے سکھر ڈویژن میں 151، لاڑکانہ میں 96، حیدر آباد میں 152، میر پور خاص میں 51 جبکہ  کراچی میں 116 تھانے موجود ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں تقریباً 300 کے قریب تھانے موجود ہیں جن میں سے پشاور ڈویژن میں 53، مردان میں 27، کوہاٹ میں 25، ڈیرہ اسماعیل خان میں 19، بنوں میں 19، ہزارہ میں 55 جبکہ مالاکنڈ میں 83 تھانے موجود ہیں۔

بلوچستان میں 150کے قریب تھانے ہیں جن میں سے کوئٹہ میں 35، ژوب میں 15، سبی میں 10، نصیر آباد میں 29، قلات میں 22 جبکہ مکران میں 14 تھانے موجود ہیں۔اسلام آباد میں تھانوں کی تعداد 22 ہے۔ 

واضح رہے کہ یہ اعدادوشمار صرف پولیس اسٹیشنز یعنی تھانوں کے ہیں جبکہ پولیس چوکیاں اور دیگر مقامات پر تعینات پولیس افسران اِس کے علاوہ ہیں۔

پولیس  پر براہِ راست حملے

قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پولیس سب سے اہم سمجھی جاتی ہے کیونکہ جب کسی شہری کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے جس کا تعلق جرائم سے ہو تو وہ سب سے پہلے اس کے حل کیلئے پولیس کی طرف دیکھتا ہے۔

کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد سمیت ملک کے ہر شہر میں کام کرنے والے پولیس اہلکار شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کام کرتے ہیں اور انہیں گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچاتے ہیں۔

ایسے اہلکار بارہا جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرکے تھانوں میں قید کرتے ہیں جو بعد ازاں سزا بھگت کر یا ضمانت پا کر رہا ہوجاتے ہیں۔ جب یہ مجرم رہا ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ پولیس اہلکاروں کی جان ہی ان سے خطرے میں ہوتی ہے۔

رہا ہونے والے جرائم پیشہ افراد بعض اوقات پولیس پر حملہ آور بھی ہوتے ہیں تاہم مسلح پولیس اہلکار ایسے حملوں سے نمٹنا بخوبی جانتے ہیں۔ اس کے باوجود کتنے پولیس اہلکار جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

خودکش حملوں کے اعدادوشمار 

دہشت گردوں کا سب سے خطرناک حملہ خودکش حملہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے دوران ایک دہشت گرد اپنے جسم پر بم باندھ کر پولیس اہلکار یا کسی بھی اہم شخصیت کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے آپ کو بھی ختم کر لیتا ہے۔

سن 2002ء سے لے کر اب تک یعنی 18 سالوں کے دوران پولیس اہلکاروں پر کم از کم 450 خودکش حملے کیے گئے جن میں کم و بیش 3 ہزار 700 پولیس اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔

گزشتہ 14 برسوں کے دوران 7 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں نے بھی خودکش حملوں کے دوران جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 14 ہزار 270 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

سندھ میں 750، خیبر پختونخوا میں 1 ہزار 457، بلوچستان میں 450، پنجاب میں 370 پولیس اہلکاروں نے گزشتہ 18 سالوں میں جامِ شہادت نوش کیا جبکہ فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے اعدادوشمار اِس کے علاوہ ہیں۔ 

شہداء کے ساتھ اظہارِ یکجہتی وقت کی ضرورت

غور کیا جائے تو پولیس اہلکاروں کی مجرموں کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ وہ عوام کے تحفظ کیلئے ہی میدانِ عمل میں اترتے ہیں اور فرائض کی ادائیگی کے دوران جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔

آج پاکستان کے ہر صوبے میں یومِ شہدائے پولیس یہ خیال رکھتے ہوئے منایا جارہا ہے کہ شہداء کا تعلق پولیس سے ہو یا پاک فوج سے، ہر انسانی جان کی قیمت اللہ تعالیٰ کی نظر میں مساوی ہے۔

اسلام کے مطابق جس نے ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی اور پولیس اہلکار ہر روز کتنی ہی انسانی جانوں کو بچانے کے مقدس فرض کی ادائیگی میں مصروف ہوتے ہیں۔

شہداء کے ساتھ اظہارِ یکجہتی وقت کی ضرورت اِس لیے ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جو اہلِ وطن کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر لیے ہر وقت حاضر ہوتے ہیں۔

Related Posts