لاہور:لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیدیا ۔
عدالت نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور آرٹیکل 6 میں کی جانے والی ترمیم ،کریمنل لا ء اسپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976 کی دفعہ 4 کو بھی کالعدم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 6 میں جو ترمیم کی گئی ہے اس کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جاسکتا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود پر مشتمل فل بنچ نے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی جانب سے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی سزا، خصوصی عدالت کی تشکیل اور حکومت کی جانب سے غداری کیس درج کیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا ۔
تین رکنی فل بنچ کی جانب سے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے سلسلے میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور نہ ہی عدالت کی تشکیل اور مقدمے کے اندراج کے لیے مجاز اتھارٹی سے منظوری لی گئی۔
عدالت نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 6 میں جو ترمیم کی گئی اس کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ کسی بھی ملزم کی عدم موجودگی میں اس کا ٹرائل کرنا غیراسلامی، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان پیش ہوئے اور عدالت کے حکم پر وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ پیش کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا جس پر جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ کابینہ کا اجلاس کس تاریخ کو ہوا تھا ۔اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اجلاس 24 جون 2013 کو ہوا تھا۔
خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کی تقرری کے معاملے پر دوبارہ کابینہ کا اجلاس ہوا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی۔
مزید پڑھیں: عدالت نے آئین شکنی کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی