پاکستان کی سیاسی تاریخ اکثر ریاست کے ستونوں اور اہم سرکاری عہدیداروں کے درمیان تصادم کا مشاہدہ کرتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس وسیع اختیارات ہیں جو قوم کی سمت بدل سکتے ہیں اور پارلیمنٹ پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں تحلیل شدہ قومی اسمبلی کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو مسترد کرنے کا ڈپٹی ا سپیکر کا حکم غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے اور ووٹنگ کرائی جائے۔
3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کے لیے اسمبلی کی کارروائی پر اپوزیشن اور منتخب اراکین اسمبلی کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔ اسے آئین کو پامال کرنے کے مترادف سمجھا گیا اور اس سے سیاسی بحران پیدا ہوا۔ وزیراعظم کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کرانے کی پیشکش کو دلچسپی سے نہیں لیا گیا کیونکہ قانون سازوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے اور آئین کے عین مطابق ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج درمیانی راستہ نکالنے کے خواہشمند تھے لیکن بالآخر انہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے اداروں کی پریشان کن تاریخ کے پیش نظر، فیصلے سے پارلیمانی معاملات میں قانونی خامیوں اور عدالت کی رسائی پر بحث ختم ہو جائے گی۔
یہ فیصلہ وزیر اعظم کے لیے ایک دھچکا ہے جو فیصلے کا احترام کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ غیر رسمی طور پرحکومت کو برطرفی سے بچانے کے لئے وزیر اعظم کا ٹرمپ کارڈ بھی خاطر میں نہیں لایا گیا، عدالت نے اس بیانیے پر بھی دھیان نہیں دیا کہ انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی منظم سازش ہوئی تھی۔ تاہم، وزیر اعظم ایک اور سرپرائز دے سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر غورکررہے ہیں۔
فیصلے میں آئین اور پارلیمانی طریقہ کار پر سختی سے عمل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ عدالت نے خود کو کسی بھی سیاست سے دور رکھا تھا اور آئین کی بالادستی پر توجہ مرکوز کی تھی۔ یہ واقعی مستقبل کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہوگا کہ آئین کو ذاتی مفادات کے لیے نہیں توڑا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کی سا لمیت اور آئین کے تقدس کو برقرار رکھنا تمام اداروں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔