کیا اپوزیشن غیر ملکی سازش میں شریک ہے؟ مختلف سوالات کا جائزہ۔ دوسرا حصہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 عمران خان اور ان کے ساتھی بظاہر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چونکہ امریکی ہماری حکومت بدلنا چاہتے ہیں، انہوں نے اس کی دھمکی بھی دی اور اس مراسلہ میں تحریک عدم اعتماد کا حوالہ بھی دیا تو جو لوگ یہ تحریک لا رہے ہیں، وہ امریکیوں کے اس سازش میں پارٹنر اور آلہ کار ہیں۔

یہ اپنی جگہ نہایت سنگین الزام ہے جس کے لئے بہت کمزور دلائل اور ثبوت تحریک انصاف والے پیش کر رہے ہیں۔

عمران خان نے یہ بات کئی بار کی کہ امریکیوں کو کیسے پتہ چل گیا کہ تحریک عدم اعتماد آرہی ہے؟چھ مارچ کو انہوں نے یہ بات کی، سات کومراسلہ پاکستان پہنچا اور آٹھ کو تحریک عدم اعتماد آ گئی یعنی عمران کے حساب سے بات ثابت ہوگئی۔

بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں پاکستان میں بچے بچے کو علم تھا۔ فروری میں مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ ہم تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں، ہم ہوم ورک کررہے ہیں اور دو تین ہفتوں میں ہم اپنے نمبر پورے کرکے تحریک لے آئیں گے۔ اس کے بعد اپوزیشن رہنماﺅں کے مختلف جگہوں پر رابطے، ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

جہانگیر ترین گروپ سے بھی سلسلہ جنبانی تب ہی سے چلنے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک طنزیہ فیس بک پوسٹ بھی لکھی تھی کہ یہ عجیب تحریک اعتماد ہے کہ اعلان پہلے ہو رہا ہے، ہوم ورک بعد میں کیا جار ہا۔

بہرحال یہ بات نہ صرف پاکستان میں بلکہ غیر ملکی سفارت خانوں کے بھی علم میں تھی کہ تحریک عدم اعتماد پر کام ہو رہا ہے اور وہ کسی بھی دن آ سکتی ہے۔ یعنی یہ قابل فہم اور قابل اندازہ بات ہے۔

اپوزیشن کے سیاسی حملوں کا ٹریک ریکارڈ

تحریک انصاف کے الزامی بیانیہ پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اپوزیشن نے اچانک عدم اعتماد کا یا عمران مخالفت کا ارادہ نہیں کر لیا۔ حکومت کے پہلے دن سے یہ سب مخالف ہیں، مولانا فضل الرحمن کا بس چلتا تو پہلے ہفتے حکومت اور اسمبلی چلتا کرتے۔ ن لیگ بھی شدید مخالف تھی۔ پی ڈی ایم نے احتجاجی جلسے کب سے شروع کر رکھے تھے۔

مولانا فضل الرحمن نے دو سال پہلے اپنا آزادی مارچ اور دھرنا کیا۔ یہ سب عمران حکومت کے خاتمے کے لئے تھا، تب امریکی تو منظر ہی سے غائب تھے، افغانستان میں بھی حالات ان کے کنٹرول میں تھے۔

اپوزیشن تو عوامی احتجاج کی قوت سے حکومت گرانا چاہتی تھی جو کہ زیادہ سنگین صورتحال تھی۔ عدم اعتماد کی بات ہمیشہ زرداری صاحب کرتے رہے کیونکہ وہ ایسے جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

ن لیگ اور مولانا اس لئے عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے کہ انہیں معلوم تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے پیش نظر حکومت کو ان ہاﺅس چینج کے ذریعے ہٹانا ممکن نہیں۔

یہ تو پچھلے سال اکتوبر نومبر میں خود عمران خان کی غلطیوں سے ”ایک پیج “والا پورا باب ہی پرزے پرزے ہوگیا اور اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک خفا ہو کر غیر جانبدار ہوگئی کہ اب اپنے معاملات خود ہی چلاﺅ۔

اپوزیشن کو جیسے ہی اس کا حتمی اندازہ ہوا، وہ تحریک عدم اعتماد کے لئے حملہ آور ہوئے۔ یہ قابل فہم اور منطقی حکمت عملی تھی۔ اس سے پہلے کہ عمران حکومت پھر سے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا لے، اپوزیشن نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا۔

انہیں یہ بھی خدشہ ہوگا کہ جون کے بجٹ میں عمران حکومت ممکن ہے الیکشن ائیر کو سامنے رکھ کر کوئی بڑا اعلان کر دے، ملازمین کی تنخواہوں میں زیادہ اضافہ یا احساس راشن اسکیم وغیرہ پر عمل درآمد۔

اپوزیشن جماعتیں یقینا یہ چاہتی ہوں گی کہ صحت کارڈ کے اثرات یا ثمرات آنے سے پہلے ہی وار کر دیا جائے تاکہ حکومت کو الیکشن میں ان سب چیزوں کا فائدہ نہ مل سکے۔ اپوزیشن کے ان تمام حربوں اور حکومت گرانے کی کوششوں کی باقاعدہ ٹریل اور سابق ریکارڈ موجود ہے، پچھلے تین برسوں سے وہ اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا انکی پچھلی کوششوں میں بھی غیر ملکی قوتیں انوالو تھیں؟ اگر نہیں تو اب شک کیوں؟۔

غیر ملکی سفارت کاروں کی ملاقاتیں
تحریک انصاف کی جانب سے ایک اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اچانک ہی بعض امریکی اور یورپی سفارت کار متحرک ہوئے اور انہوں نے اپوزیشن لیڈروں اور منحرف اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کیں۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے نزدیک یہ اپوزیشن کی غداری اور ملی بھگت کی دلیل ہے ورنہ یہ لوگ گورے سفارت کاروں سے کیوں ملتے؟۔

بات یہ ہے کہ ایسی سفارتی ملاقاتیں عام روٹین ہے۔ جب بھی ملک میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو، تب غیر ملکی سفارت کار مختلف پارٹیوں اور لیڈروں سے رسمی، غیر رسمی ملاقاتیں کرتے، دعوتوں میں انہیں بلاتے ہیں۔

ان کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ بدلتے حالات کا اندازہ لگاکر اپنے ملک رپورٹ بھیجیں۔ یہ صرف گورے نہیں کرتے بلکہ مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفارت کار بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ سفارت کاروں کی کتابیں پڑھی جائیں تو ایسے بے شمار واقعات عام ملیں گے۔

سابق بھارتی وزیرخارجہ نٹورسنگھ پاکستان میں سفیر تھے تو وہ بھٹوخاندان سے رابطہ میں رہتے، پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے ملتے، ضیا حکومت اس پر ناخوش تھی، مگر روکنا ممکن نہیں تھا۔ یہ سب باتیں نٹور سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھیں۔

مزے کی بات ہے کہ خود عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ان سے کتنی بار امریکی، برطانوی، یورپی سفارت کار ملتے رہے ہیں۔ اخبارات کا پرانا ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں، ایسی بہت سی ملاقاتوں کی خبر، تصویر مل جائے گی۔

کیا عمران خان مغربی ایجنٹ تھے جو ان سفارت کاروں سے ملتے تھے ؟صرف مغربی ہی نہیں بلکہ چینی سفارت کار بھی متحرک رہتے ہیں، اپوزیشن لیڈر کے طور پر خان صاحب کی چینیوں سے ملاقاتیں بھی رہیں۔

ویسے بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ سی آئی اے کوئی خفیہ سازش کرے تو ان کے لئے ایسا کرتے ہوئے خفیہ ملاقات کرنا بھی ممکن نہیں؟ وہ پاگل ہیں کہ سازش کے لئے مریم نواز یا کسی دیگر اپوزیشن لیڈر سے ملیں اور پھر اس کی تصویر میڈیا میں آ جائے؟ ان کے لئے خفیہ ملاقات کرنا کیا مشکل ہے؟ سب سے آسان ہے کہ امریکہ سفارت خانہ میں کسی دعوت میں بلا لیا جائے اور پھر خاموشی سے کسی الگ کمرے میں ملاقات یا جوڑتوڑ ہوجائے، جس کا کوئی ثبوت، کوئی تصویر کسی کے پاس نہ ہو۔

نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے توثیق کیوں کی؟
میرے خیال میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے امریکہ سے آئے پاکستانی سفارت کار کے مراسلے کی توثیق کی کیونکہ اسے جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے اس پر اتفاق کیا کہ امریکہ کا ایسا کرنا نامناسب اور غلط تھا اور اسی لئے امریکی ناظم الامور کو وزارت خارجہ بلوا کر احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔ یعنی وزیراعظم عمران خان کے بیانیہ کے پہلا حصہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے توثیق کی مگر اپوزیشن کے اس سازش میں شریک ہونے کا نہ کوئی ثبوت تھا اور نہ ہی یہ خلاف معمول یا عجیب یا غیر منطقی سیاسی موو تھی، اس لئے ظاہر ہے اس کی توثیق نہیں کی جا سکتی تھی۔

ورنہ اگر اس الزام کو درست مانتے تو اپوزیشن لیڈروں پر آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ دائر ہوچکا ہوتا۔ ایسا نہیں ہوا، یعنی ہمارے نیشنل سیکورٹی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کا کسی غیر ملکی سازش سے کوئی تعلق نہیں۔

ان تمام نکات کی روشنی میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ مراسلہ اپنی جگہ، اس حوالے سے وزیراعظم نے جو کہا، وہ درست، مگر تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش نہیں اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر غیر ملکی آلہ کار ہیں۔

عمران خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی جنگ سیاسی انداز میں لڑیں۔ غدار غدار کھیلیں گے تو ملک میں پہلے سے موجود تقسیم بہت بڑھ جائے گی۔ تمام جماعتیں اور لیڈر محب وطن ہیں، ان کے سیاسی نظریات، طریقہ کار وغیرہ سے اختلاف ہوسکتا ہے۔

اسی اختلاف پر بات کریں، مگر مخالف سیاستدان کو غیر محب وطن یا غدار کہنا دراصل فاشسٹ اپروچ ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس انتہا تک جانے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے۔

Related Posts