لیاقت باغ اور مینار پاکستان ختم نبوت کانفرنسز۔۔۔۔۔۔ اثرات کیا ہوں گے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اصل موضوع کی طرف جانے سے قبل دو واقعات پڑھیے
ہمارے ایک دوست ہیں۔ان کا این جی او طرز کا ادارہ ہے، کچھ عرصہ قبل جب این جی اوز مسائل اور بحرانوں کی زد میں تھیں، ان کے پاس کوئی پروجیکٹ نہ تھا تو انہوں نے ڈونرز کے ساتھ براہ راست ملاقاتوں اور قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا،اس مقصد کے لیے انہوں نےمختلف اسفار کیے۔ کئی اہم شخصیات سے ملے، بڑے بڑے اداروں کے دورے کیے لیکن وہ جو پروجیکٹس اورجو پرپوزلز بنا کر لے گئے تھے کوئی ایک بھی منظور نہ ہوا۔

ان کے اپنے طے شدہ اہداف، منصوبوں اور ارادوں کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔۔۔البتہ بہت سی جگہوں سے۔۔۔ کہیں سے ملفوف اور ڈھکے چھپے انداز میں۔۔۔۔ کہیں سے اشارۃ کنایۃ اور کہیں سے صراحتاً ان سے کہا گیا کہ آپ پاکستان میں انسداد توہین رسالت کے قانون کو ختم کروانے کے لیے، اقلیتوں یعنی قادیانیوں کے حقوق کے لیے،پاکستانی معاشرے میں قادیانیوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور شدت پسندی کو ختم اور کم کرنے کے لیے اگر لابنگ اور کام کر سکتے ہیں تو آپ کو ہم فنڈنگ کرنے اور پروجیکٹ دینے کے لیے تیار ہی،وہ دوست کہتے ہیں یہ صورتحال دیکھ کر میں توبہ استغفار کرتے ہوئے خالی ہاتھ واپس آ گیا۔

دوسرا واقعہ ہمارے ایک عالم دین دوست کے ساتھ پیش آیا-وہ پاکستان کے ایک بڑے شہر میں معروف مدرسہ چلاتے ہیں-ان کا ادارہ تعلیمی معیار اور تربیتی اہتمام کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، خود بھی وہ وقتاً فوقتاً طلبہ کی ذہن سازی کرتے رہتے ہیں چند دن قبل ان کے ہاں مہمان آئے، انہوں نے مہمانوں کے اکرام کے لیے پانچ سال سے ان کے ادارے میں زیر تعلیم ایک طالبعلم کو بھیجا اور وہ بوتلیں خریدلایا-بوتلوں والا شربت گلاسوں میں ڈال کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کیاگیا،مولانا کو شبہ ہوا، انہوں نے خالی بوتلیں منگوائیں تو وہ شیزان کی نکلیں۔

اس سے ملتے جلتے بہت سے واقعات ہیں لیکن یہ دو واقعات ختم نبوت اور منکرین ختم نبوت کے حوالے سے دو پہلوؤں کی طرف خصوصی توجہ دلانے کے لیے ذکر کیے گئے۔

پہلا اور اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ ختم نبوت اور منکرین ختم نبوت کے معاملے میں بیرونی قوتیں، اسلام دشمن لابیاں اور طاغوتی قوتیں کیا عزائم اور پروگرام رکھتی ہیں اور ان کے حلقوں میں 7 ستمبر 1974 کے فیصلے اور ختم نبوت کے اور ناموس رسالت کے قوانین کے حوالے سے کیا چل رہا ہے؟۔

جبکہ دوسرا واقعہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے ہے کہ جب شعور ختم نبوت اجاگر نہیں کیا جائے گا اور ختم نبوت اور منکرین ختم نبوت کے حوالے سے ذہن سازی نہیں ہوگی تو قادیانیوں کی مصنوعات مدارس اور علماء کی مجالس میں بھی آپہنچیں گی۔

ان دونوں واقعات کے تناظر میں اگر ہم لیاقت باغ راولپنڈی اور مینار پاکستان لاہور کے سائے تلے ہونے والی عظیم الشان،فقیدالمثال اور تاریخ ساز ختم نبوت کانفرنسوں کے انعقاد کی ضرورت، اہمیت اور ان کے اثرات و ثمرات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت ختم نبوت کے عنوان سے ان دونوں اہم ترین مقامات پر کانفرنسز کا انعقاد کتنا ضروری تھا۔

لیاقت باغ راولپنڈی کی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت اور اس کے لیے ہونے والی تیاریوں اور انتظامات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جبکہ لاہور کانفرنس میں اگرچہ ارادے کے باوجود حاضری تو نہیں ہو پائی لیکن مکمل احوال سامنے آتے رہے۔

لیاقت باغ کانفرنس کے حوالے سے جو سب سے خوش آئند اور قابل ذکر پہلو ہے وہ یہ کہ عالمی تحفظ مجلس ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے تمام علماء کرام، مذہبی تنظیموں کے کارکنان اور مختلف مکاتب فکر کے وابستگان نے جس اہتمام اور بے لوث جذبوں سے کانفرنس کی تیاری کے لئے کردار ادا کیا وہ لائق صد تحسین ہے خاص طور پر تاجر برادری نے شرجیل میر کی قیادت میں جس طرح اس کانفرنس کے لیے دامے، درمے، سخنے قدمے محنت کی۔تعاون کیا۔۔۔اس عظیم کام کو اپنا کام سمجھا۔۔۔۔جس بڑی تعداد میں راولپنڈی کی تاجر برادری کانفرنس میں شریک ہوئی وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔

راولپنڈی میں ہفتہ اتوار لاک ڈاؤن ہوتا ہے اور جمعہ کو ہفتہ واری چھٹی ہوتی ہے تو گویا تین دن دکانیں اور کاروبار بند رکھنے کے بعد پیر کے دن جو تین دن کے وقفے کے بعد کاروباری سرگرمیاں اور مصروفیت کے لحاظ سے اہم ترین دن ہوتا ہے تاجر برادری نے اس دن کو ختم نبوت کے نام کیا-اس پر اللہ کریم کی رحمت سے کامل امید ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے ضرور نوازیں گے۔

کانفرنس کے لئے جو تیاریاں کی گئیں اور جس طرح گلی گلی اور محلے میں ختم نبوت کی آواز لگی۔ صرف راولپنڈی نہیں بلکہ دیگر شہروں اور علاقوں میں بھرپور محنت ہوئی۔جگہ جگہ سے قافلے آئے۔صرف ایک کانفرنس نہیں بلکہ سیکڑوں اور ہزاروں پروگرامز،میٹنگز، مشاورتی اجلاس ہوئے ان سب نے پورے علاقے میں ایک فضا بنا دی۔اللہ کریم کی ذات سے امید ہے کہ ختم نبوت کے لیے اٹھنے والا ہر قدم اور ہر بول میزان پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حصول کا ذریعہ بنے گا۔

لیاقت باغ کانفرنس کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت راولپنڈی کے امیر شیخ الحدیث مولانا قاضی مشتاق صاحب اور عالمی مجلس کے فعال اور مستعد مبلغ مولانا طیب فاروقی بطور خاص قابل ذکر ہیں اور دیگر تمام حضرات نے ہی ماشاءاللہ دل و جان سے محنت کی جبکہ لاہور میں برادر گرامی مولانا عزیز الرحمن ثانی اور ہم درس دوست مبلغ ختم نبوت مولانا عبدالنعیم پیش پیش رہے صرف عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے جملہ متعلقین،اہل مدارس،علماء،طلباء، تاجر برادری کے رفقاء ہی سرگرم عمل نہیں رہے بلکہ ہر طبقہ فکر کے وابستگان نے خوب محنت کی، شبان ختم نبوت سے وابستگی رکھنے والے نوجوانوں نے اس کار خیر میں بھرپور حصہ ڈالا۔

مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے حجم اور حیثیت کے مطابق کانفرنسوں کی کامیابی کے لئے کردار ادا کیا خاص طور پر جمیعت علماء اسلام کے کارکنان ہمیشہ کی طرح سرگرم عمل رہے اور حضرت مولانا فضل الرحمن کی شرکت اور خطاب نے ان کانفرنسوں کی کامیابی میں مؤثر کردار ادا کیا۔ راولپنڈی اور لاہور شہر میں ہونے والی ان دونوں کا نفرنسوں نے 1953ء اور 1974ء کی اور ختم نبوت کی تحریکوں کے دور کی یاد تازہ کردی۔

مدت بعد اس درجے کی عظیم الشان کانفرنسوں سے ان تمام عناصر، ان تمام قوتوں اور ان تمام طبقات کو ایک مؤثر پیغام گیاجو پاکستان میں قادیانیوں کی آئینی حیثیت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس جیسے قوانین کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں یا جو قادیانیوں کو رعایتیں دلوانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

ان دونوں کانفرنسوں کو بلا شبہ ریفرنڈم کی حیثیت حاصل تھی اور امید کی جاسکتی ہے کہ ان کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے جبکہ اس سے کہیں زیادہ اہم امر یہ ہے کہ ان دونوں کانفرنسوں کی وجہ سے شعور ختم نبوت اجاگر ہوا۔ ان نوجوان لوگوں کے سامنےجنہوں نے 53ء،74ء اور 84ء کی تحریکیں نہیں دیکھیں اور جن کے لئے ختم نبوت، قادیانیت اور اس سے متعلقہ موضوعات اس سے پہلے اتنے اہتمام سے نہیں آئے یہ کانفرنسیں ان سب لوگوں کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنیں اس کار خیر کا اہتمام کرنے کے لیے اکابر کی یادگار اور سب سے بڑی منظم تحریک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت مبارکباد اور پوری امت کی طرف سے شکریہ کی مستحق ہے اللہ رب العزت سب کی مساعی جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔آمین

Related Posts