جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آگیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آگیا
جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آگیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ  کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججز نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل مقدمے کا تین روز قبل محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا ہے۔

سپریم کورٹ نے جج مبینہ ویڈیو سکینڈل کیس کا 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر  بھی جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات کے حوالے سے متعلقہ فورم نہیں۔ عدالت نے ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔

چیف جسٹس آصف سعید نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے بھی اس کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت نامناسب ہوگی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کا ماضی مشکوک ہے جس کا انہوں نے اپنے بیانِ حلفی میں اعتراف بھی کیا ہے۔ اگر ارشد ملک کا ماضی بے داغ ہوتا تو وہ بلیک میل نہیں ہوسکتے تھے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ جج ارشد ملک نے مجرموں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے خاندان سے بھی مراسم بڑھائے۔ جج کے اس فعل نے عدلیہ کو قوم کے سامنے شرمندہ کردیا ہے۔ عدالت کو توقع ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائے گی اور انہیں اپنے جرم کی سزا ضرور ملے گی۔

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کا متن:

تحریری فیصلے سے  قبل سپریم کورٹ میں ریمارکس دئیے گئے کہ جج ارشد ملک اسکینڈل کیس میں پانچ معاملات سامنے آئے۔ پہلا معاملہ یہ تھا کہ کون سا فورم ویڈیو پر فیصلہ دے۔ کیا سپریم کورٹ اس حوالے سے فیصلہ دینے کے لیے درست فورم ہے؟ دوسرا معاملہ یہ تھا کہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کیسے درست مانا جائے؟ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جج ارشد ملک کی جو ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے وہ اصلی ہے یا اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  شوگر ملز کیس میں احتساب عدالت نے مریم نواز کے ریمانڈ کا فیصلہ محفوظ کر لیا

تیسرا معاملہ یہ تھا کہ اگر ویڈیو اصلی ہے تو عدالت میں کیسے ثابت کیا جائے؟ کیا طریقہ کا راختیار کیا جائے جس کے تحت یہ ثابت ہوگا کہ ویڈیو اصلی ہے۔ چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ ویڈیو اصل ثابت ہونے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا پر کیا اثر ہوگا، جبکہ پانچواں معاملہ یہ تھا کہ جج ارشد ملک کے رویے پر کس فورم میں بات کی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر فیصلہ سنا دیا ہے۔فیصلے کی کاپی کچھ دیر میں جاری کردی جائے گی جسے انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکے گا۔جج ارشد ملک اسکینڈل کیس کا فیصلہ سنانے والے بینچ میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل تھے۔

واضح رہے کہ اشتیاق مرزا، سہیل اختر اور طارق اسد نے یہ درخواست دی تھی کہ ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کی جائیں۔تحقیقات کا پس منظر یہ ہے کہ  6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جسے متنازعہ قرار دیا گیا۔

جاری کردہ ویڈیو میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ  نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ سزا سنانے والے جج نے خود اعتراف کر لیا ہے کہ اس کا فیصلہ دباؤ اور بلیک میلنگ کا نتیجہ ہے۔ ایسی صورت میں جج کے فیصلے کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: عوام کی سہولت کے لیے قوانین ویب سائٹ پر شائع کر دئیے گئے ہیں۔ فروغ نسیم

Related Posts