اگر مسئلۂ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے توہم غیر جانبدار مبصرین، صریحاً تکبر اور انسانی حقوق پامال کرنے اور عالمی طاقتوں کی بے حسی پر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ ایک مشرقی عالمِ دین ڈاکٹر یاسر قادھی نے اپنے حالیہ لیکچرز میں ٹیکساس میں پلوٹو اسلامک سینٹر اور فلسطین کے تنازعے پر صیہونی بیانیے پر 5 اہم سوالات کے جواب دئیے ہیں۔
پہلا سوال یہ تھا کہ 20ویں صدی کے آغاز پر صیہونی تحریک میں شامل ساتھی یورپی باشندوں سے برطانیہ نے کیا وعدہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ، ہم جانتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بعد سے جب تک کہ عیسائی صلیبی جنگوں نے اس پر فتح حاصل نہ کر لی، فلسطین بنیادی طور پر مسلم حکمرانی میں تھا۔
مسلم عہد کے دوران ، فلسطین ہر ایک کے لئے کھلا تھا ، قطع نظر اس کے کہ وہ مذہبی وابستگی سے زندگی گزاریں ، عبادت کریں اور دعا کریں۔ مزید یہ کہ اس عرصے کے دوران ، فلسطین کے باشندوں کے درمیان کوئی خانہ جنگی یا تنازعہ نہیں ہوا ، کیوں کہ صلیبی جنگ ہونے تک مسلمان ، عیسائی اور یہودی سب پر امن طور پر ایک ساتھ رہ رہے تھے۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں نے فلسطین سے متعلق 3 مختلف گروہوں سے 3 متضاد وعدے کیے۔ پہلا یہ کہ انگریزوں نے عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا تھا جس کی شرط یہ تھی کہ عرب اپنے ساتھی مسلمانوں اور خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردیں۔ نیز یہ کہ انگریزوں نے اردن کے موجودہ بادشاہ کے عظیم الشان دادا یعنی مکہ مکرمہ کے شریف کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑیں اور تیونس سے عراق تک پھیلی عرب سرزمین پر فتح حاصل کرنے کے بعد انہیں خلیفہ بنادیا جائے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جون 1916ء کو شریفینِ مکہ نے مدینہ میں عثمانیوں پر حملہ شروع کردیا جس میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ رہا لیکن المیہ یہ تھا کہ شریفِ مکہ جیسے مسلم غداروں نے ان کی مدد کی اور آخر میں غداروں کو کوئی انعام بھی نہ مل سکا۔
جب برطانیہ کے حکام مکہ مکرمہ کے شریف سے خلافت کا وعدہ کر رہے تھے، انہوں نے فرانسیسی، اٹلی اور روس سے سلطنتِ عثمانیہ کی تقسیم پر بات چیت کر لی تھی۔ یہ خفیہ معاہدہ بدنامِ زمانہ سائکس پکوٹ معاہدہ کہلاتا ہے جو دوسرا متضاد معاہدہ ہے۔ سائکس اور پکوٹ کے ذریعے ہاتھ سے کھینچی جانے والی حدود آج بھی موجود ہیں۔
تیسرا متنازعہ وعدہ یا معاہدہ انگریزوں نے 1917ء کا بدنامِ زمانہ بالفور اعلان کرکے کیا۔ یہ بالفور اعلامیہ یہودی عوام کیلئے فلسطین میں ایک قومی گھر کے قیام میں برطانوی حمایت کا بیان تھا۔ برطانوی سیکریٹری آرتھر جیمز بالفور نے یہ وعدہ اولاً برطانوی یہودی رہنما جبکہ دوم بیرن روتھشائلڈ (ڈرائنگ) لیونل والٹر روتھشائلڈ کے ایک خط میں کیا۔
دراصل انگریزوں نے ایسی سرزمین کا وعدہ کرنے کی ہمت کر لی جو ان لوگوں کیلئے نہیں تھی۔ صیہونی یورپی یہودی جن کا فلسطین سے کوئی تعلق نہیں تھا انہیں فلسطین میں بسانے کا وعدہ کیا گیا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ سن 1900ء کے قریب فلسطین کی یہودی آبادی بمشکل 3 فیصد تھی جو ہزاروں سال سے اتنی ہی چلی آرہی تھی۔ فلسطین میں یہودی یہودی عرب کہلاتے تھے جو عربی بولتے تھے اور سن 1930ء اور 40ء کی دہائی میں صیہونی تحریک کے آغاز سے قبل تک عربی بولنے والے یہودیوں نے مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے یہودی پس منظر رکھنے والے یورپی باشندوں کو فلسطین کی اکثریت کیلئے قانون سازی کا حق کیسے دے دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1947 میں قرارداد نمبر 181 منظور کی جس کے تحت فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے پر زور دیا گیا جس میں یروشلم شہر کو کارپس علیحدگی (لاطینی زبان کا لفظ ہے، مطلب ہے علیحدہ وجود) کے طور پر ایک خصوصی عالمی حکومت کے قیام کی منظوری دی گئی۔ حکومت مقامی فلسطینی آبادی اور اس کی قیادت کے ساتھ کوئی مشورہ کیے بغیر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا یعنی اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو 3 حصوں میں تقسیم کردیا۔ یورپی صیہونیوں کو 55 فیصد اراضی ملی، مقامی عربوں کو 45 فیصد جبکہ یروشلم کو ایک علیحدہ وجود حاصل ہوا۔
یہودی آبادی 1947 میں یورپی صیہونیوں کی نقل مکانی کے سبب فلسطینیوں کی کل آبادی کا 30 فیصد بن گئی لیکن ان کے پاس زمین صرف 7 فیصد رہی۔ باقی آبادی 70 فیصد عرب تھی جو 93 فیصد فلسطین کی مالک تھی لیکن اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں غیر منصفانہ طور پرفلسطین کی اکثریت یہودیوں کیلئے مختص کردی گئی جن کی اکثریت حالیہ مہاجرین پر مشتمل ہے، درحقیقت اقوامِ متحدہ کی قرارداد نے 1917ء کے بالفور اعلامییے کی توثیق کردی تھی۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو 1948ء میں مکمل فوجی کارروائی کا اخلاقی حق کس بنیاد پر حاصل ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ ڈیوڈ بین گورین کے ذریعے 14 مئی 1948 کو اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد نئی تشکیل کردہ ریاست نے فلسطین کے عرب باشندوں، جو بنیادی طور پر کسان ہیں ، ان کے خلاف جنگ شروع کردی۔
عرب صدیوں سے فلسطین کی سرزمین پر کام کر رہے ہیں جن کے پاس لڑنے کیلئے اسلحہ موجود نہیں۔ اسرائیلی فوج نے 450 عرب دیہاتوں پر حملہ کیا اور عوام کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ کئی عشروں سے اسرائیلی حکومت اور مؤرخین نے کسی بھی قتلِ عام کے وجود تک سے انکار کردیا جس کے بعد یہودیوں کو رہائش کیلئے جگہ مل گئی۔
تاہم اسرائیلی مؤرخ ایلان پیپے نے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں مناسب برطانوی اور اسرائیلی سرکاری دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے اس داستان کو شروع کیا جس سے ظاہرہوتا ہے کہ عربوں کی ملک بدری کی ایک تاریخ ہے ، جیسا کہ دیگر مؤرخین نے بھی استدلال کیا لیکن انہوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذکر کیا ہے جو 1947ء میں اسرائیل کے رہنماؤں کے تیار کردہ پلان ڈیلیٹ کے تحت ہوئی۔
اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی فوج نے 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا جو عربی میں نقبہ یعنی تباہی کے نام سے بدنام ہے۔ وہی صیہونی ذہنیت جو ہم آج اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں دیکھنے پر مجبور ہیں جہاں نئے یہودی تارکینِ وطن اِس رویے کے ساتھ فلسطینیوں کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں کہ اگر میں یہ زمین ہڑپ نہیں کروں گا تو کوئی اور کرلے گا۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ صیہونی یہودیوں کو 1967ء میں چھ روزہ جنگ شروع کرنے کا حق کس نے دیا؟ تو فلسطین پر جارحیت کے نتیجے میں مظلوم فلسطینیوں کی 80فیصد سے زائد سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد بھی صیہونیوں کا لالچ کم نہیں ہوا، اس لیے 5 جون 1967ء کو اسرائیل نے اپنے عرب ہمسایہ ممالک پر ایک کثیر محاذ حملہ کردیا جس کے نتیجے میں جزیرہ نمائےسینا، غزہ کی پٹی، مغربی کنارہ (بشمول مشرقی یروشلم)، شیبہ کے کھیتوں اور گولان کی پہاڑیوں پر چھ دن بعد قبضہ ہوا ، جس کے بعد فلسطینیوں نے اس 6 روزہ تباہی و بربادی کو دوسرے نقبہ یعنی دوسری تباہی کا نام دے دیا جس کے تحت مزید 6 لاکھ فلسطینی اپنی سرزمین سے بے دخل ہو گئے۔ آج کل پوری دنیا میں کم و بیش 70 لاکھ یہودی جبری تارکینِ وطن موجود ہیں جو اپنے آبائی علاقوں میں واپس نہیں جاسکتے۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو پابندیاں عائد کررکھی ہیں، اس کا کیا اخلاقی جواز بنتا ہے؟ تو یہودی آباد کاروں اور مقبوضہ فلسطینی عوام کے مابین زندگی کے حالات میں زمین آسمان کا تضاد نظر آتا ہے۔ یہودی علاقے ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے آپ کسی مغربی ملک میں آنکلے ہوں لیکن جب آپ اس رنگین دیوار کی دوسری جانب دیکھتے ہیں تو مظلوم فلسطینیوں کے علاقے کچی آبادیاں نظر آتے ہیں۔ غزہ کی پٹی دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے جہاں ہوا تو آسانی سے داخل اور خارج ہوسکتی ہے مگر 20 لاکھ سے زائد مقید فلسطینی اسرائیل کی اجازت کے بغیر کہیں آجا نہیں سکتے۔
بہت سے غیر مسلموں نے بھی اسرائیل کو رنگ برنگی ریاست قرار دے دیا۔ سابق امریکی سدر جمی کارٹر نے اپنی 2006 میں شائع کی گئی کتاب میں مقبوضہ علاقوں اور غزہ مین اسرائیلیوں کے ساتھ فلسطینیوں کے برتاؤ کو موضوع بنایا۔
انگلیائی آرچ بشپ اور امن پر نوبل انعام یافتہ دیسمنڈ توتو نے جنوبی افریقہ اور فلسطین کے مابین مماثلت اور جنوبی افریقہ میں فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے عالمی دباؤ کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ معاملات میں اسرائیل میں پایا جانے والا رنگ امتیازی سلوک سے بھی بد تر ہے۔ 2014ء میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل جلد ہی دو ریاستی حل پیش کرکے صلح نہ کرے تو اسرائیل ایک رنگ برنگی ریاست بن جائے گی۔
اب وہ وقت آچکا ہے کہ اسرائیل کے دوست مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکا اور اس کا میڈیا بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیلی حکمرانی کے تحت فلسطین میں ہونے والے ریاستی جبر وستم کا مقابلہ کرے۔ چین میں مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ ظلم و ستم کے بارے میں وزیرِ اعظم عمران خان سے کم آواز اٹھانے پر سوال کرنے کی بجائے مغربی صحافیوں میں یہ ہمت بھی ہونی چاہئے کہ وہ اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینیوں کی حالتِ زار اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے متعلق بھی اپنی حکومتوں سے ایسے ہی سوالات پوچھیں۔ کیا اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک نے مقبوضہ علاقوں میں عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کیلئے جنم لیا تھا؟ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ امریکی حکومت اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالرز دینے کے باوجود اسرائیلیوں سے سچ بولنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلۂ کشمیر اور فلسطین تاحال حل طلب ہیں جبکہ مغرب نے چینی مسلمانوں کا معاملہ اقوامِ متحدہ میں نہیں اٹھایا۔
مغربی ممالک فلسطینیوں کے خلاف حالیہ اسرائیلی کارروائی میں خواتین اور بچوں کے قتل کو اپنا دفاع قرار دے کر کس طرح جائز قرار دے سکتے ہیں؟ مغرب فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر تھوڑی سی بھی آواز بلند نہیں کرسکتا۔
کینیڈا کے وزیرِ خارجہ مارک گارنیو نے اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگانے سے انکار کردیا، گویا مغرب بھی فلسطین اور کشمیر پر ہونے والے ظلم و ستم پر اتنی ہی منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے جتنا کہ چینی مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم پر مسلم قائدین خاموش ہیں۔