چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ججوں کو بروقت فیصلے اور وکلا کی تربیت پر زور

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

chief justice asif saeed khosa
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ججوں کو بروقت فیصلے اور وکلا کی تربیت پر زور

ملتان: چیف جسٹس آف پاکستان  آصف سعید کھوسہ نے ججوں کو بروقت فیصلے اور وکلا کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کو معاشرے میں عزت فیصلے کرنے کی وجہ سے ملتی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان میں تقریب سے خطاب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرا تعلق بھی ملتان سے ہے اور یہاں کئی سال گزارے ہیں اور ملتان نے سپریم کورٹ کو گھیرا ہوا ہے کیونکہ چیف جسٹس اور جونیئر جج بھی یہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملتان بینچ سے میری یادیں وابستہ ہیں، 1981 میں ملتان بینچ میں بطور وکیل پیش ہوا،، ملتان کے وکلاء اور ججز سے بہت کچھ سیکھا، اُس وقت ماحول ایسا تھا کہ عدالت میں بدمزگی نہیں ہوتی تھی لیکن اب حالات وہ نہیں رہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت اچھا ماحول تھا، سینئر اور جونیئر کے درمیان پیار، شفقت، استاد اور شاگرد اور اچھا احترام تھا اور جن ججوں کے سامنے ہم پیش ہوتے تھے وہ بڑے مخلص اور پڑھے لکھے ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں کیسز کم تھے، جج تسلی سے کیس سن لیتے تھے لیکن اب کیسز میں اضافہ ہوگیا ہے اور ججوں کی تعداد کم ہے، زیادہ کیسز کی وجہ سے شاید جج وکیل صاحبان کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے خواتین کا آگے بڑھنا ناگزیر ہے، جسٹس گلزار احمد

انہوں نے کہا کہ کبھی کوئی واقعہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی قسم کے حالات پیدا ہوں کہ عدالت کے اندر بدمزگی پیداہوجائے یہ قابل تصور تھا کیونکہ ماحول ایسا تھا اور تربیت دینے والے ایسے تھے تو اب حالات وہ نہیں رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے نئے وکلاء کو سینیئر وکیل مل جاتے تھے جو ان کو سکھاتے تھے، نئے وکلاء جتنی تعداد میں آرہے ہیں، اتنے سینیئر وکلاء میسر نہیں، اس لیے ہر کیس میں ایک سینیئر وکیل کے ساتھ دو جونیئر وکیل ہوتے ہیں، ہر نواجون وکیل کو سینیئر کے پاس سیکھنے کی جگہ مل جاتی تھی تاہم اب جونیئرز اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کے استاد ہی جونیئرز ہیں۔

تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لا کالجوں میں صورت حال یہ ہے کہ جس نے فرسٹ ایئر پاس کیا اور سیکنڈ ایئر میں جاتا تو اس کو کہتے ہیں آپ فرسٹ ایئر کو پڑھائیں گے تو آپ کی فیس معاف ہوگی اس طرح سیکنڈ ایئر کا طالب فرسٹ ایئر کو پڑھاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علم سیکھنے اورسکھانے کی روایت کو آگے لےکر چلنا ہوگا، تاریخ، حساب اور ادب انتہائی ضروری ہے،انہوں نے کہا کہ بطور جج کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ فیصلے کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب وہ آداب، کیس کو کس طرح تیار کرنا ہے وہ روایت نہیں رہی، اب ان حالات کو ٹھیک کیسے کرنا ہے، اس کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، وکالت پیسہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ خدمت کے لیے کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کورٹ روم میں سب بیٹھے ہوتے ہیں لیکن جج فیصلہ سناتے ہیں، جج اور دیگر افراد میں یہی فرق ہے اگر جج صاحب فیصلہ دیے بغیر چلے جائیں گے توان میں اور قاصد میں کوئی فرق نہیں، اگر جج فیصلہ نہ کریں گے تو معاشرہ ہمیں عزت کیوں دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے اور سنتے ہیں کہ بار اور بینچ ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں لیکن اس گاڑی کو کھینچنے والے سائل کی بات کوئی نہیں کرتا، سب سے اہم سائل ہوتا ہے جس کی وجہ سے عدلیہ کا نظام چلتا ہے۔

Related Posts