غزہ کی پٹی میں سرگرم مزاحمتی تنظیم تحریک اسلامی جہاد اور اسرائیلی افواج کے درمیان گولہ باری اور میزائلوں کے نئے تبادلے کے باوجود مصر کی امن لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم مبصرین کو خدشہ ہے کہ عسکری کونسل کے رکن اور ’’جہاد اسلامی‘‘ کے مسلح ونگ القدس بریگیڈ کے میزائل یونٹ کے انچارج علی غالی کا قتل ان کوششوں میں رکاوٹ بنے گا۔
خاص طور پر چونکہ تحریک اسلامی جہاد نے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی قتل عام کو آسانی سے گزرنے نہیں دیا جائے گا اور مزاحمت کی میز پر تمام آپیشن موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
مصر کا دباؤ کام کر گیا، اسرائیل اور فلسطینی دھڑے مذاکرات پر آمادہ
تحریک اسلامی جہاد نے پہلے بھی تل ابیب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حملوں کو روکنے کے لیے پہلے خضر عدنان کی میت حوالے کرے۔ اسرائیل نے ان شرائط کو مسترد کر دیا تھا اور ثالثوں کو اپنی شرط سے آگاہ کیا تھا کہ صرف جنگ بندی کے بدلے میں جنگ بندی کی جائے گی۔ اس بات کی تصدیق تحریک اسلامی جہاد نے بھی کی تھی۔
اسرائیل اب تک اسرائیلی جیل میں جاں بحق فلسطینی کارکن خضر عدنان کی لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار پر قائم ہے۔ ذرائع نے کہا کہ مصر، قطر اور اقوام متحدہ کے رابطے فی الحال دونوں فریقوں کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مرکوز ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ کی پٹی میں گزشتہ روز رابطوں اور مذاکرات میں شدت کے دوران امن کا دور دورہ تھا جس میں متعلقہ فریقوں کی جانب سے جنگ بندی کے امکانات کے بارے میں امید ظاہر کی گئی تھی تاہم اسرائیل کی جانب سے ’’ اسلامی جہاد‘‘ کی شرائط کو مسترد کیے جانے کے بعد کشیدگی پھر بڑھ گئی تھی۔
اسلامی جہاد نے آج جمعرات کو غزہ کی پٹی کے اطراف کے اسرائیلی قصبوں اور تل ابیب کے جنوب میں راکٹ فائر کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا اور اسلامی جہاد کے رہنما غالی کو قتل کر دیا۔
منگل کو لڑائی شروع ہونے کے بعد سے دونوں فریقوں کے درمیان تشدد کی بدترین لہر سامنے آئی تھی۔ اسرائیلی بمباری اور حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کم از کم 25 ہو گئی ہے۔
جنوری کے آغاز سے اب تک دونوں فریقوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپوں اور چھاپوں میں 125 سے زائد فلسطینی اور 19 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2022 میں اسرائیل اور اسلامی جہاد کے درمیان تین دن تک مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں 49 فلسطینی مارے گئے تھے جن میں اسلامی جہاد کے 12 ارکان اور کم از کم 19 بچے بھی شامل تھے۔