ماحول انتہائی کشیدہ ہے۔گزشتہ 34روز سے اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس کے دوران اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں پر کم از کم 30 ہزار ٹن گولہ بارود کی بارش کی جبکہ امریکا نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو بم گرائے تھے ، ان کے وزن کا تخمینہ 10 سے 15 ہزار ٹن لگایا گیاتھا۔
ترک میڈیا (الجزیرہ) نے جنگ پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ کم از کم 2 ارب ڈالر لگایا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے پریسیژن بمبنگ کی جارہی ہے جس میں ڈپلیٹڈ یورینیم استعمال ہوتا ہے جس کی ہلاکت خیزی کے بعد بھی اس کے مہلک اثرات 20سے 30سال تک انسانیت پر پڑتے رہتے ہیں۔
غزہ کے دنیا کی سب سے بڑی جیل سے سب سے بڑی مقتل گاہ بننے کے بعد اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں بشمول یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک بیان میں کہا کہ تقریبا ًایک ماہ سے دنیا صدمے اور خوف کے عالم میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورت حال کا مشاہدہ کر رہی ہے، جہا ں ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تباہی بڑھتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ایک پوری آبادی محصور اور حملوں کا شکار ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیاء تک رسائی سے محروم ہے، وہاں عام باشندوں کے گھروں، پناہ گاہوں، ہسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ناقابل قبول ہے۔
اقوام متحدہ کی اٹھارہ تنظیموں کے سربراہوں کے دستخطوں سے جاری کردہ اس بیان میں مزید کہا گیا، ہمیں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فوراً جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ 30 دن سے زیادہ ہو چکےہیں۔ بس بہت ہو گیا۔ اسے بند ہونا چاہیے۔‘‘ اس بیان میں سات اکتوبر کے بعد دونوں طرف ہونے والی اموات کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کے بار بار مسترد کیے جانے کے بعد غزہ میں عام شہریوں کو بچانے کے لیے تل ابیب پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں ۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن خطے کے مختلف ممالک کے ہنگامی دورے کررہے ہیں۔
اس کے باوجوداسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 10ہزارسے تجاوز کرچکی ہے جن میں 4ہزار سےزائد بچے بھی شامل ہیں جس کا جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، اور اس دوران 6نومبر کو ماحول کے استحصال کی روک تھام کا عالمی دن بھی منایا گیا۔
اسرائیل کی جارحیت کے باعث ماحولیاتی سطح پر جو نقصان ہورہا ہے، اس سے صرف مقبوضہ فلسطین ہی نہیں بلکہ خود اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک بھی بری طرح متاثرہوسکتے ہیں۔
جو کچھ حماس نے کیا یعنی 7اکتوبر کو جو 7 ہزار راکٹس فائر کیے گئے، اسے مسلح مزاحمت کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ عالمی قوانین کے تحت فلسطین عربوں کی سرزمین ہے جس پر صرف فلسطینی عوام کا حق ہے جبکہ اسرائیل کی حیثیت ایک قابض اور جارح دشمن سے زیادہ کچھ نہیں۔قابض ملک کے خلاف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2649 کے تحت ہر قسم کی مزاحمت بشمول مسلح مزاحمت کو بھی تحفظ دیا گیا ہے جبکہ سفارتکاری کی سطح پر دیگر ممالک سے بھی کہا گیا ہے کہ جائز مزاحمت کاروں کی مدد کی جائے۔
امریکاکا اسرائیل کی آواز میں آواز ملا کر کہنا ہے کہ ہم حماس کو ختم کردینا چاہتے ہیں، امریکی وزیرخارجہ نے کانگریس کے سامنے بیان دیا کہ ہم فلسطینی اتھارٹی کو تھوڑا سا دوبارہ ڈپلوئے کریں گے اور غزہ سے حماس کی منتخب حکومت کو نکال پھینکیں بلکہ حماس کو ختم کردیں۔ حماس ختم کرتے کرتے امریکا ، اسرائیل اور دیگر اتحادیوں نے 10 ہزارسے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں ہزاروں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جس کا کہ اوپر بھی ذکر آچکا ہے ۔
اسرائیل کا ایک پیپر بھی لیک ہوچکا ہے جس میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ اسرائیلی فلسطینیوں کو غزہ سے مصر دھکیل کر یہ تمام علاقہ بھی خالی کروا لینا چاہتے ہیں، حالانکہ مقبوضہ فلسطین میں غزہ کی 11 سے 13 کلومیٹر کی پٹی کو چھوڑ کر تمام تر فلسطین پر اسرائیل کا ہی قبضہ ہے۔
عالمی دن کی بات کی جائے تو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 6نومبر 2001 کے روز جنگ اور مسلح تصادم کے دوران ماحول کے استحصال کی روک تھام کا عالمی دن منانے کیلئے قرارداد منظور کی۔
دن منانے کا مقصد مسلح تصادم کے دوران، جیسا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اور روس کی جانب سے یوکرین میں جاری ہے، ماحول کو پہنچنے والے نقصانات اور جنگ کے وقت ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جبکہ تاریخ انسانی میں مسلح تنازعات کے دوران ماحولیات کے تحفظ کی کوئی مثال شاذ و نادر ہی دستیاب ہوگی۔
مسلح تنازعات کے دوران ماحول کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچایا جاتا ہے جس میں جنگلات کی کٹائی، عمارات کی تباہی و بربادی، ملبے تلے لاشوں کا دب جانا، آلائشوں سے اٹھتا ہوا تعفن ، مٹی کی آلودگی اور آبی آلودگی جیسے عوامل شامل ہیں۔ ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی 1990 سے مسلح تصادم کے وقت ماحولیات کے احترام کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہے۔
اقوام متحدہ کا ماحولیاتی پروگرام مسلح تنازعات کے ماحولیاتی اثرات پر قابو پانے اور امن کی کارروائیوں میں ماحولیاتی تحفظات کے انضمام کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ تو یہ ہے کہ بد ترین بمباری کے نتیجے میں عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) اور آلودگی میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشئرز پگھلنے کا سلسلہ تو پہلے ہی شروع ہوچکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے ساحلی شہر سمندر میں آہستہ آہستہ ڈوب کر صفحۂ ہستی سے مٹتے چلے جائیں گے۔ کھیت کھلیان خشک ہونے کے نتیجے میں ایک بڑی آبادی سسک سسک کر مرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ فلسطین میں رہنے والے لوگوں کو غذائی قلت ، پانی، بجلی اور اشیائے ضروریہ کی بھی قلت کا سامنا ہے۔
مسلسل بمباری کے باعث کوئی بھی شخص ایک روز میں تین چار گھنٹوں سے زیادہ سو نہیں سکتا۔ ملبے تلے دبے ہوئے زندہ انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاشوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی اجسام کے گلنے سڑنے کی صورت میں بھی ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔11 میل پر مشتمل پٹی میں ہزاروں ٹن بارود گرایا جارہا ہے جہاں ہر 5 سے 10 منٹ کے وقفے میں کوئی نہ کوئی بچہ شہید ہوجاتاہے۔
گزشتہ روز یونیسیف کے سربراہ نے کہا کہ غزہ میں بچے پانی کی کمی کے باعث بھی شہید ہورہے ہیں۔ بچوں کے جسم میں صرف 5فیصد پانی کی مقدار بچی ہے اور مزید پانی دستیاب نہیں۔ ٹراؤما کے باعث خواتین اسقاطِ حمل (مس کیرج) کا شکار ہورہی ہیں۔ ماحولیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ صرف اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری کے باعث ہونے والی اموات اور پھر ہسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث جو بد ترین آلودگی پیدا ہورہی ہے، اس سے وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کی جارحیت کے باعث غزہ کے متاثرہ علاقوں میں موجود قابلِ کاشت اراضی تباہ ہوئی ہے جس سے ماحولیاتی مسائل کو مزید تقویت بہم پہنچی اور ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کیلئے جگہ کی عدم دستیابی کے باعث بھی نت نئے ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ قدرتی ذرائع تک رسائی نہ ہونے کی وجہ اسرائیل کی صیہونی پالیسیاں بھی ہیں جن کے نتیجے میں غزہ میں رہنے والے مظلوم فلسطینی گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کیے جارہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں نے بد ترین حالات سے تنگ آ کر اپنا وطن چھوڑ دیا۔
یہی نہیں بلکہ غزہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کے باعث ایک اسرائیلی بجلی گھرحالیہ برسوں میں کتنی ہی بار بند ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے فلسطین پر غیر قانونی قبضے، کالونائزیشن، فلسطینیوں کی بے دخلی اور جارحیت کے باعث فلسطینی آبادی اور اسرائیل کے مابین موجودہ خونریزی سے قبل بھی جنگی کارروائیاں، جبر و تشدد اور گولے بارود کا استعمال جاری رہا ہے ، اور پھر موجودہ بمباری کے نتیجے میں غزہ میں ماحولیاتی صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے، دنیا کی دیگر آبادی کیلئے اس کا تصور ہی محال ہے۔
عالمی سطح پر اسرائیل حما س جنگ کو روکنے کے 3 طریقے ہوسکتے ہیں جن میں سے پہلا عالمی قانون ہے جس کی اسرائیل اپنے قیام کے وقت سے ہی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
سلامتی کونسل کی مختلف قراردادیں جن کا ہم انہی صفحات پر پہلے ہی ذکر کرچکے، اسرائیل کو پابند کرتی ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو ان کا حق خود ارادیت دے اور فلسطینیوں کی سرزمین سے اپنا غیرقانونی اور ناجائز تسلط ختم کرے۔ انہی قراردادوں کے تحت اسرائیل نے 1967 میں جن زمینوں پر قبضے کیے وہ عالمی قانون کے تحت مقبوضہ علاقہ ہے۔
آج فلسطین کوعالمی سطح پر امداد کی جتنی ضرورت ہے، دنیا کے کسی اور خطے کو نہیں۔ روزانہ یہاں 100 امدادی ٹرک بھیجے جانے چاہئیں، تاہم اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے باعث 10 سے 15 ٹرک سے زائد امداد جانے نہیں دی جارہی۔
جب تک اسرائیل کی جانب سے بمباری اور زمینی و فضائی حملوں کا یہ سلسلہ رک نہیں جاتا، یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہوگا کہ غزہ کے رہنے والے فلسطینیوں کیلئے زندگی کتنی مشکل اور ماحولیاتی صورتحال کس حد تک ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کی جانب سے بد ترین جارحیت کے خلاف صف آرا ہو اور ماحولیاتی مسائل کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کی جائے تاکہ مزید جانی، مالی اور ماحولیاتی نقصان سے بچا جاسکے۔