بے نظیر بھٹو کی زندگی کے وہ دلچسپ گوشے جو کم لوگ جانتے ہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Interesting aspects of Benazir Bhutto's life that few people know

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بے نظیر بھٹو ابھی طالب علم تھیں، انہیں اپنے سیاستدان والد جو ملک کے حکمران بھی تھے، ان کے ساتھ بھارت دورے پر جانا پڑا۔ یہ وہی اہم دورہ ہے جس میں پاک بھارت شملہ معاہدہ ہوا اور بھارت نے پاکستانی قیدی رہا کر دئیے۔

ذوالفقار بھٹو کی نصیحت
نوجوان بے نظیر کو بھٹو صاحب نے دوران پرواز بلا کر خصوصی نصیحت کی کہ بھارت میں تمہیں بہت ہی محتاط رہنا پڑے گاکیونکہ ہر بات سے لوگ اپنے معنی اور نتائج اخذ کریں گے۔ کوشش کرنا ہوگاکہ زیادہ مسکراؤ نہیں ، ورنہ لوگ کہیں گے کہ ایک طرف تو پاکستانی فوجی ابھی تک جنگی قیدی ہیں اور وزیراعظم کی بیٹی تفریح کر رہی ہے۔ اسی طرح چہرے سے کسی قسم کی مایوسی نہیں جھلکنا چاہیے کہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ ہمارے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔

بے نظیر کی الجھن
بے نظیر بھٹو نے اس پر والد سے سوال کیا کہ پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ بھٹو صاحب کا جواب تھا، تمہیں نہ افسردہ دکھائی دینا چاہیے اور نہ ہی بہت خوش۔ بے نظیر بھٹو اس پر پریشان ہوگئیں، اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے باپ کو کہا کہ یہ تو بہت ہی مشکل کام ہے۔ بھٹو صاحب نے مسکرا کر جواب دیا، تم ٹرائی کر کے دیکھو، یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔

شملہ آمد
بے نظیر بھٹو نے بعد میں لکھا،”کہ جب ہم شملہ پہنچے تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی استقبال کے لئے موجود تھیں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے نمستے کہہ کر خوش آمدید کہا۔ یہ میرے امتحان کا پہلا موقعہ تھا۔ بھارتی وزیراعظم کی مسکراہٹ کے جواب میں میں نے نیم دلی سے مسکرا کر پہلی مرتبہ یہ دکھانے کی کوشش کی کہ میں نہ تو بہت خوش ہوں اور نہ ہی مایوس ہوں۔“۔

چند ہم سفر
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان سے متعلق بعض دلچسپ معلومات مشہور ٹی وی پروڈیوسر اور مصنف اختر وقار عظیم کی نئی کتاب چند ہم سفر پڑھ کر ملی۔ اختر وقار عظیم پی ٹی وی میں سینئر عہدوں پر فائز رہے ہیں، اپنی کتاب میں انہوں نے مختلف شخصیات کے بارے میں دلچسپ انکشافات کئے۔

ڈرامے میں اداکاری
بے نظیر بھٹو پر اپنے مضمون میں انہوں نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ پی ٹی وی پر جب مقبول کھیل ”کرن کہانی“ کی ریکارڈنگ شروع ہونے والی تھی تو اس کی شوخ اور چنچل ہیروئن کے لئے نوجوان بے نظیر بھٹو سے بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ یہ کردار ادا کرنا چاہئیں گی، افتخار عارف کے بقول اس سلسلہ میں بے نظیر بھٹو کراچی ٹی وی کے متعلقہ پروڈیوسروں کی دعوت پر دفتر بھی آئی تھیں، بہرحال یہ کام نہیں ہوسکا۔ یاد رہے کہ کرن کہانی میں ہیروئن کا وہ کردار نوجوان روحی بانو نے ادا کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس کردار کو امر بنا دیا۔

بینظیر بطورٹی وی میزبان
اختر وقار عظیم کے اسی مضمون سے پتہ چلا کہ بے نظیر بھٹو جب انگلستان سے اپنی تعلیم کا پہلا حصہ مکمل کر کے واپس آئیں تو انہوں نے پی ٹی وی پر حالات حاضرہ کے پروگرام انکاؤنٹر(Encounter) کی میزبانی کی تھی۔ بطور اینکر، ہوسٹ بے نظیر بھٹو نے اس انگریزی پروگرام کی چھ قسطیں کیں جو نشر ہوئیں۔

ان پروگراموں میں بے نظیر بھٹو نے دیگر نوجوانوں اور طلبہ کے ساتھ مل کر پاکستان کے سیاسی، سماجی حالات کا جائزہ لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو خود بھی صحافی بننا چاہتی تھیں۔ ایسا نہ ہوسکا، حالات انہیں سیاست کی طرف لے آئے ۔ مگر وہ اخبارات میں مضامین لکھتی رہیں اور اختر وقار عظیم کے مطابق بے نظیر بھٹو نے ایک بار پی ٹی وی کا خبرنامہ بھی اپنی نگرانی میں تیارکرایا ۔

عالمی شہرت یافتہ مقرر
بے نظیر بھٹو کی صحافت کے بعد دوسری دلچسپی انسانی نفسیات میں تھی۔ وہ اس مضمون میں اعلیٰ ڈگری لینا چاہتی تھیں، مگر انہیں پتہ چلا کہ اس کے لئے تعلیمی ضرورت کے تحت مختلف جانوروں کی چیر پھاڑ(Disection)کرنا پڑے گی۔

بے نظیر بھٹو نے تب نفسیات کا خیال چھوڑ دیا۔ انہیں کالج کی طرف سے پولیٹیکل سائنس کو مضمون چننے کا مشورہ دیا گیا، دراصل بھٹو صاحب کالج پرنسپل کو ایک خط میں اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے۔

بے نظیر بھٹو کا سیاسیات کو بطور مضمون پڑھنے یا سیاست میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، مگر والد کی خواہش کے احترام میں وہ اس طرف گئیں۔ بھٹو صاحب کے کہنے پر ہی فن خطابت میں توجہ دی اور بعد میں وہ عالمی شہرت یافتہ مقررہ بنیں۔

بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ
اختر وقار عظیم نے بتایا کہ بطور وزیراعظم وہ بچوں کی سالگرہ وغیرہ کے موقعہ پر ٹی وی کی ٹیم کو گھر مدعو کر لیتی تھیں۔ ان گھریلو تقریبات میں جانے سے اختر وقار عظیم کو بے نظیر کی شخصیت کے کئی ان دیکھے گوشے نظر آئے کہ کیسے وہ عام ماؤں کی طرح بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں ، ہوم ورک میں بچوں کی مدد بھی کرتی تھیں اور ملازموں سے چائے پتی کا حساب بھی لیتی تھیں۔

خواجہ نظام الدین کاعرس
انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ بے نظیر بھٹو کے پولیٹیکل سیکریٹری ڈاکٹر اظہارامروہی نے ایک بار بی بی کو کہا کہ میں پندرہ دنوں تک نہیں آ سکوں گا کیونکہ بھارت حضرت خواجہ نظام الدین کے عرس میں شرکت کے لئے جا رہا ہوں۔

بے نظیر بھٹو نے کہا اچھا اچھا، وہاں تو مجھے بھی ایک کام ہے، اس کے بعد وہ گھر کے اندر گئی اور روپوں سے بھرا ہوا ایک لفافہ لئے واپس آئیں۔ اظہار امروہی کو وہ لفافہ دیتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے کہا، یہ میری طرف سے مزار پر غریبوں میں بانٹ دیجئے گا۔ پھر تھوڑا سا وقفہ دے کر مسکرائیں اورکہا اس بات کا خیال رکھئیے گا کہ غریب صرف مسلمان ہی نہیں ، یہ پیسے ہر مذہب کے ضرورت مندوں کے لئے ہیں۔

چہرے پرنشان
کتاب کے ایک اور مضمون میں درج دلچسپ واقعہ آصف زرداری کی ہوشیاری اور اسمارٹ نیس کو ظاہر کرتا ہے۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بننے کے بعد جب تقریر کی ریکارڈنگ کے لئے پہلی بار ٹی وی دفتر آئیں تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ میک اپ کرانا پسند کریں گی یا نہیں؟ اختر وقار عظیم اسلام آباد سینٹر کے جی ایم تھے، انہیں چیف میک اپ آرٹسٹ نے کہا کہ بی بی کے چہرے پر نشان اور دھبے ہیں جو کیمرے میں برے لگیں گے۔

یہ بات حسین حقانی جو تب سیکریٹری اطلاعات تھے، انکے ذریعے بے نظیر بھٹو تک پہنچائی گئی ۔ وہ میک اپ کے لئے فوری تیار ہوگئیں۔ آصف زرداری بھی موجود تھے، انہوں نے کہا،”چہرے پر نشان تو بی بی کی سیاسی جدوجہد اور سٹرگل کے ترجمان ہیں، انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے ۔“بے نظیر بھٹو نے یہ بات سنی مگر میک آپ آرٹسٹ کو اشارہ دیا کہ اپناکام کرتے رہو۔

اعتماد اور وقار
اختر وقار عظیم نے نعیم بخاری پر اپنے مضمون میں ذکر کیا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کا انٹرویو کیا تو اندازہ ہوا کہ بی بی ایک منجھی ہوئی براڈ کاسٹر ہیں، انہیں انٹرویو دینے کا خاص سلیقہ تھا، اس لئے وہ کسی تیز سے تیز اور ترش سے ترش سوال کا جواب بھی بلا جھجھک دے دیتی تھیں۔ اس انٹرویو میں نعیم بخاری نے دو چار بار کہا کہ بی بی آپ عوامی لیڈر ہیں، آپ سے لوگ عشق کرتے ہیں۔

انٹرویو ختم ہوا تو بی بی جو ایک محتاط انسان تھیں، انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھ لیا کہ یہ کیا بار بار عشق کی بات کر رہا تھا، کیا یہ مناسب ہے؟ پروگرام کے پروڈیوسر نے تب انہیں سمجھایا کہ بی بی جو آپ سمجھ رہی ہیں، اس عشق سے وہ مراد نہیں، نعیم بخاری کا مطلب ہے کہ آپ کو آپ کے ووٹر بہت پسند کرتے ہیں۔ بی بی کو کچھ تسلی ہوئی، مسکرائیں اور حکم جاری کر دیا کہ اچھا تو یوں ہے ، اتنا بہت سارا عشق وشق نکال دو، ایک دو جگہ ہی کافی ہے۔

حس ظرافت
اسی انٹرویو میں نعیم بخاری نے پارٹی سے متعلق سوال کیا تو بے نظیر بھٹو نے جواب دیا، آج کل میں اس کا ڈھانچہ بنا رہی ہوں۔ ان کی مراد غالباً منشور سے تھی۔ نعیم بخاری کی رگ شرارت پھڑک اٹھی، انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، ابھی سے ؟پھر نعیم نے بی بی کو بتایا کہ ڈھانچے کا انگریزی میں مطلب Skeleton ہے، بے نظیر بھٹو تب ہنس پڑیں اور ان کے کہنے پر یہ سوال انٹرویو سے ایڈٹ کر دیا گیا۔

انٹرویو میں بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کچھ کہا تو نعیم بخاری نے لقمہ دیا، وہ تو میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے برجستہ جواب دیا، Some Men Have Bad Taste

Related Posts