پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر ہے، بھارت کی جانب سے صورتحال کو مزید خراب کرنے کیلئے متنازعہ اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی کاٹنے کی دھمکی دیکر صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔
روا ں سال کے شروع میں پلوامہ حملے کےبعد جہاں بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلسل الزام تراشی کی جارہی تھی وہیں بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دیکر اپنے مذموم عزائم پوری دنیا پر آشکار کردیئے جس کے بعد پاکستان میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
5 اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کئے جانے کے بعد تناؤ میں مزید اضافہ ہواتاہم پاکستان نے بھارت پر سندھ طاس معاہدے کوجاری رکھنے پر زور دیا تھا۔ستمبر 1960 میں طے شدہ انڈس واٹر ٹریٹی اور ورلڈ بینک کے ذریعہ پائے جانے والے معاہدے میں یہ اصول وضع کیے گئے تھے کہ دونوں ممالک دریائے سندھ اور اس کے مضافاتی علاقوں کا پانی کس طرح تقسیم کرینگے ۔
اسے کامیاب ترین معاہدوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس معاہدے پرکشیدگی اور تنازعات کے دوران بھی کامیابی سے عملدرآمد جاری رہا تاہم اب بھارتی حکومت تاریخی معاہدے سے الگ ہونے کیلئے پر تول رہی ہے۔
پاکستان نے کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں کے معاملات میں معاہدے کی خلاف ورزیوں کے حل کے لئے عالمی بینک سے رجوع کیا ہے۔ پاکستان کاکہنا ہے کہ دریائے جہلم اور چناب پر تعمیر کیے جارہے ڈیموں کے ڈیزائن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ تنازعہ پر ورلڈ بینک کے عہدیداروں سے ملاقات کے لئے پاکستان کاایک وفد امریکا روانہ ہوچکا ہے جو معاہدے کے مکمل نفاذ کے لئے دباؤ ڈالے گااورپاکستان کے خدشات کو دور کرنے کے لئے ثالثی عدالت قائم کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
معاہدے کے دستخط کنندہ کے طور پر عالمی بینک کا کردار محدود ہونے کی وجہ سے عالمی بینک ان منصوبوں کو فنڈ زنہیں دے رہالیکن بھارت ان دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبوں کیلئے معاہدے پر عملدرآمد کا پابند ہے ۔
بھارت کی جانب سے آبی معاہدے کی خلاف ورزی سے جنگ کے دہانے پر موجود دونوں حریف ممالک کے درمیان ہولناک جنگ چھڑ سکتی ہے جس سے دونوں ممالک کو شدید نقصان ہوگا، بھارت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں سے باز رہنا چاہیے اور دونوں ممالک کو آبی تنازعہ کو جلد سے جلد پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔