بھارتی مسلمانوں کو بڑا ریلیف، ہزاروں مکانوں کا انہدام ٹل گیا

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگادی ہے جس میں ہلدوانی کی غفور بستی کے چارہزار مکانوں کوبزور طاقت منہدم کرنے کا حکم سنایا گیا تھا۔

متاثرین کی آہوں اور دعاؤں کے درمیان آئے اس عدالتی فیصلے سے ان پچاس ہزار مکینوں کو راحت ملی ہے، جو کئی روز سے منجمد کردینے والی سردی کے درمیان سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے۔ ہلدوانی انتظامیہ کی طرف سے لگاتار یہ اعلان ہورہا تھا کہ غفور بستی کے مکین ایک ہفتہ کے اندر اپنے مکان خالی کردیں تاکہ یہاں عدالتی حکم سے بلڈوزر چلایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں:

اسلامی ترقیاتی بینک کے تحت غزہ کے محصور مسلمانوں میں گوشت تقسیم

انتظامیہ نے یہ اعلان کرنے سے پہلے نہ تو یہاں رہنے والوں کی بازآبادکاری کا منصوبہ بنایا اور نہ ہی ان کی چیخ وپکارپر کوئی دھیان دیا۔حالانکہ احتجاجی خواتین کی دعائیں عرش سے ٹکرارہی تھیں۔ عورتوں اور بچوں کی چیخیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں اور یہاں شاہین باغ جیسے مناظردیکھنے کو مل رہے تھے۔لیکن انتظامیہ کی دھمکیاں لاؤڈاسپیکروں کے ذریعہ فضا میں بدستور گونجتی رہیں اور عجیب ارتعاش پیدا ہوتارہا۔

آخرکارانصاف کے لیے ملک کی سب سے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جہاں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔سماعت کی اگلی تاریخ 7فروری طے ہوئی اور تبھی یہ معلوم ہوسکے گا کہ اتراکھنڈ سرکار غفوربستی کے مکینوں کی بازآبادکاری کا کیامنصوبہ پیش کرتی ہے۔

اس دوران قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے ہلدوانی احتجاج میں بچوں کو شریک کرنے پر یہ کہتے ہوئے اعتراض درج کرایا ہے کہ سخت سردی میں احتجاج کے مقام پرانھیں کیوں لایا گیا، لیکن کمیشن اس المیہ پر خاموش ہے کہ اس شدید سردی کے موسم میں اگر ان بچوں کے آشیانے اجاڑ دئیے جاتے تو وہ کہاں جاکر اپنا سرچھپاتے؟

ہلدوانی معاملہ پرسپریم کورٹ میں عرضی گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے کہاتھا کہ غفوربستی میں تجاوزات ہٹانے سے تقریباً پچاس ہزار لوگ متاثر ہوں گے اور یہ کارروائی عوامی مقامات ایکٹ کے تحت غیرقانونی ہے جبکہ اتراکھنڈ سرکار کا کہنا تھا کہ غفور بستی کے مکینوں نے ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس کول نے کہا کہ”اس معاملے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ ہم سات دن کے اندر تجاوزات ہٹانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے سے پہلے ان کی بازآبادکاری کا کام کرایا جانا چاہئے۔کچھ لوگوں کے پاس 1947کے وقت کے زمین کے کاغذات ہیں۔“

 ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب آباد غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان یہاں دادا اورپر دادا کے زمانے سے رہتا چلا آیا ہے۔دوکلومیٹر کے علاقہ میں پھیلی ہوئی ان آبادیوں میں 3 سرکاری اسکول، 11 پرائیویٹ اسکول، 10 مسجدیں، 12مدرسے ایک سرکاری اسپتال اور ایک مندر واقع ہے۔

یہاں کی 90 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر یہ آبادی غیرقانونی تھی تو یہاں سرکاری اسکول کیسے وجود میں آئے۔

یہاں کا گورنمنٹ گرلز انٹر کالج 1952 میں جونئر ہائی اسکول کے طورپر قایم ہوا تھا جہاں اس وقت ایک ہزار طالبات زیرتعلیم ہیں۔ انتظامیہ نے ان طالبات کے مستقبل کی بھی کوئی فکر نہیں کی اور اسکول پر بھی بلڈوزرچلانے کا حکم دے دیا۔  

Related Posts