قومی و بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین کی شرکت کی اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قومی و بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین کی شرکت کی اہمیت
قومی و بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین کی شرکت کی اہمیت

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گزشتہ دنوں عورت مارچ کا شور اٹھا تو خواتین کے حقوق کہیں دب کر رہ گئے اور ہم ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد کے جھگڑے میں اُلجھتے چلے گئے جس کا ہمیں بہت بعد میں احساس ہوا کہ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔

ہر سال8 مارچ کو  خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اسی روز پاکستان میں عورت مارچ کے  نام سے ریلی بھی نکلی، تاہم اس  کے ساتھ ساتھ  19 مارچ کا دن ایک تاریخی سنگِ میل عبور کرنے کے حوالے سے اہم ہے۔

کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں پہلی بار خواتین کا آئس ہاکی ٹورنامنٹ کھیلا گیا جو آج سے 20 سال پہلے کی بات ہے یعنی سن 1990ء میں 19 مارچ کو خواتین کا آئس ہاکی ٹورنامنٹ ہوا جس میں بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔

اسی حوالے سے ہمارا آج کا موضوع یہ ہے کہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں مردوخواتین دونوں شرکت کرتے ہیں، تاہم خواتین کی شرکت کی اہمیت کیا ہے اور کیا کبھی ہم نے انہیں اتنی اہمیت دی جو ضروری تھی؟

آئس ہاکی کا کھیل 

آئس ہاکی سے مراد ہاکی کا ایسا کھیل ہے جسے کھیلنے کے لیے زمین کی جگہ برف کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ میدان کے دونوں اطراف میں گول کے لیے جال یعنی نیٹ لگے ہوتے ہیں جہاں ہاکی کی بال کو پہنچایا جاتا ہے۔

دونوں طرف کے کھلاڑی مخالف ٹیم کے گول کیپر کو چکما دے کر گیند کو اُن کے گول تک پہنچا کر پوائنٹ اسکور کرتے ہیں۔ جس ٹیم کے زیادہ پوائنٹس ہوتے ہیں، وہ جیت جاتی ہے۔ 

کھیلوں میں نظر انداز کردہ  صنف

صنفِ نازک کو دنیا کے متعدد میدانوں میں نظر انداز کیے جانے کا سامنا رہا اور کھیلوں میں بھی یہی صورتحال پیش آئی۔ خواتین کو قومی و بین الاقوامی سطح کے کھیل کے مقابلوں پر آج اکیسویں صدی میں بھی اتنی اہمیت کبھی حاصل نہیں ہوسکی جو آج مردوں کو حاصل ہے۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کے تیز ترین باؤلر کا نام شعیب اختر ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ سنچریاں اسکور کرنے والے کھلاڑی کا نام ساچن ٹنڈولکر ، لیکن کیا آپ کو کسی خاتون کھلاڑی کا نام یاد ہے جس نے کسی حالیہ مقابلے میں بہترین کھیل پیش کیا ہو؟

ممکن ہے ذہن پر زور دے کر شاید ایک آدھ نام آپ کو یاد آجائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم خواتین کے کھیلوں کے مقابلوں کو ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں اور انہیں کبھی اتنی اہمیت نہیں دیتے جو مردوں کے مقابلوں کو دی جاتی ہے۔ صرف پاکستان اور بھارت نہیں بلکہ دنیا بھر میں کھیلوں کے میدانوں کا کم و بیش یہی حال ہے۔

آمدن میں فرق

ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کو وہ اُجرت یا معاوضہ نہیں ملتا جو مرد کھلاڑی لیتے ہیں۔ ایک عام خاتون کھلاڑی کے مقابلے میں مرد کھلاڑی دو گنا یا اس سے بھی زیادہ کماتے ہیں لیکن خواتین کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

اگر ہم اس کے اعدادوشمار کی طرف گئے تو بات بہت طویل ہوجائے گی، اس کی بجائے صرف وجوہات کا جائزہ لینا بہتر ہوگا۔ دراصل آمدن میں کمی کی وجہ بھی اہمیت نہ دینا ہی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں خواتین کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہوا۔ ہماری کپتان بسمہ معروف انگوٹھے پر چوٹ کھا کر کھیل سے باہر ہو گئیں لیکن اس بات کو میڈیا پر زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔

اس کے مقابلے میں اگر آپ ٹی ٹوئنٹی کی پاکستان سپر لیگ کی بات کریں تو سب لوگوں نے گھر بیٹھ کر پہلے اوور کی پہلی گیند سے لے کر آخری اوور کے شاٹ تک تقریباً سارے میچز دیکھے اور ان پر داد کے ساتھ ساتھ لعن طعن بھی کی۔

یہاں آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اہمیت دینے یا نہ دینے سے معاوضے کا کیا تعلق؟ تو ہمارا نکتہ یہ ہے کہ اگر تماشائی کھیل کو اہمیت نہیں دیں گے تو مقابلے کروانے والی انتظامیہ مقابلہ کرنے والی ٹیم کا معاوضہ خودبخود کم کردے گی اور یہی خواتین کے ساتھ آج تک ہوتا آیا ہے۔

کھیلوں میں خواتین کی شرکت کی اہمیت 

ہمارا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خواتین کو کھیلوں کے مقامی، قومی یا بین الاقوامی مقابلوں میں شریک ہوتی ہیں، کیا ان کے کردار کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے؟ اگر دی جاتی ہے تو کتنی؟

عام طور پر پاکستان اور بھارت سمیت مشرقی ممالک میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کو گھر سنبھالنا چاہئے۔ مغربی ممالک میں بھی خواتین کو دیگر مختلف وجوہات کے باعث وہ اہمیت نہیں ملتی جو مرد حضرات کو حاصل ہوتی ہے۔ 

خواتین کا حقیقی کردار سمجھنے کی ضرورت 

افسوس اس بات کا ہے کہ خواتین کو نوعِ انسانی کے کسی بھی دور میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو انہیں حاصل ہونا چاہئے تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی انسان خواتین کا حقیقی کردار سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

خدا نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی جوڑوں کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مرد عورت کے بغیر ادھورا اور عورت مرد کے بغیر نامکمل ہوجاتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ دونوں اصناف کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے الگ الگ رکھ کر کامیاب نہیں ہوسکتا۔

جب خواتین کھیل کے میدانوں میں نکلیں تو ہوا کچھ یوں کہ ایک طبقۂ فکر نے انہیں شوپیس سمجھتے ہوئے کھیل سے زیادہ ان کے خدوخال پر توجہ دینا شروع کردی جبکہ دوسرے طبقۂ فکر نے مذہبی فکر کے زیرِ اثر کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔

ہونا یہ چاہئے تھا کہ کھیل کو کھیل ہی کی طرح اہمیت دی جاتی اور خواتین کو بھی انسان سمجھا جاتا۔ انہیں اپنے برابر مقام عطا کیا جاتا۔ بطور مذہب خواتین کو مردوں کے بغیر حقوق دینے میں آج بھی اسلام کا کردار سب سے بہتر نظر آتا ہے۔ 

 

Related Posts