امام ابو یوسف کی علماء کو تلقین

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

فقہ حنفی کے دوسرے جلیل القدر امام حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے علماء کرام کو چند اہم امور کی تلقین فرمائی ہے جو یہ ہیں:

(01) حصول علم کو ہر کام پر مقدم رکھنا۔ جب اس سے فارغ ہوجاؤ تو پھر باقی وقت میں معاش کا کام کرنا۔ کیونکہ ایک وقت میں یہ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔

(02) اپنا ظاہر و باطن ایک رکھنا۔ خدا کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ رکھنا جیسا لوگوں کے سامنے ظاہر کرتے ہو۔ (یعنی جب لوگوں کے سامنے خود کو جنید بغدادی بنا کر پیش کرتے ہو تو پھر بن کر بھی دکھانا)۔

(03) جب کسی شہر جاؤ تو وہاں کے علماء سے اس طرح ملاقات کرنا کہ وہ رقابت محسوس نہ کریں (یعنی علم کی نمائش سے پرہیز کرنا)۔

(04) علمی گفتگو کا موقع آئے تو جو کہو خوب سوچ سمجھ کر کہو۔ جس بات کی آپ کے پاس دلیل نہ ہو وہ کہنے سے گریز کرنا۔

(05) اگر کسی علمی مکالمے کی نوبت آجائے تو بات پوری استقامت اور جرأت کے ساتھ کرنا۔ خوف زدہ مت ہونا، کیونکہ اس سے دماغ منتشر ہوجاتا ہے اور زبان ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔

(06) جو لوگ علمی مجالس کے آداب سے واقف نہ ہوں بلکہ بحث بازی کا شوق رکھتے ہوں، ان سے کبھی گفتگو نہ کرنا۔

(07) اپنے اساتذہ کو کبھی برا بھلا مت کہنا، ورنہ آپ کے شاگرد بھی آپ کے ساتھ وہی کریں گے۔ اپنے اساتذہ کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہا کرو۔

(08) اپنے شاگردوں سے اس محبت و شفقت سے پیش آیا کرو کہ دیکھنے والے کو لگے وہ آپ کی اولاد ہیں۔

(09) اگر کسی شاگرد کو تدریس کی اجازت دو تو اس کے سبق میں خود بھی شریک ہو کر اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے رہا کرو۔

(10) جب آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو اتنا ہی بتایئے جتنا پوچھا گیا ہے۔ لمبی چوڑی تقریریں مت جھاڑا کیجئے۔

(11) علمی مجالس میں خاص طور پر اہتمام کرکے غصے کی عادت مت ڈالنا۔ (موجودہ دور میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے)۔

(12) دین اور عقائد کے اختلافی مسائل کے حوالے سے عوام سے گفتگو مت کرنا۔

(13) اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہا کرو۔

(14) علم کی نگہداشت کیا کرو۔

(15) اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو۔

(16) اتنی ہی عبادت ادا نہ کیا کرو جتنی عوام ادا کرتے ہیں۔ آپ کی عبادت ان سے زیادہ ہونی چاہئے۔ اور مسجد میں ہی ادا کیا کرو۔

(17) اذان سنتے ہی وضوء کے لئے کھڑے ہوجاؤ، اور وضوء کرتے ہی مسجد روانہ ہوجاؤ۔

(18) ہر نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر الہی میں مشغول رہا کرو۔

(19) جب تک لوگ امامت کا نہ کہیں از خود امامت کے لئے آگے نہ بڑھا کرو۔

(20) ہر ماہ کے دو چار دن روزے کے لئے مقرر کرلو۔ اور زیارتِ قبور کی عادت ڈال لو تاکہ موت یاد رہے۔

اگر ہم غور کریں تو اس وقت پاکستان کی 99 فیصد مساجد میں صورتحال یہ ہے کہ امام صاحب جماعت کھڑی ہونے سے عین چند سیکنڈز قبل مسجد میں آتے ہیں۔ گویا اس حساب سے آتے ہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہوں تو اللہ کے گھر میں بیٹھنے کی زحمت سے نہ گزرنا پڑے بلکہ سیدھا مصلے پر کھڑے ہوجائیں اور جماعت شروع ہوجائے۔ اسی طرح سلام پھیر کر دعاء مانگتے ہی وہ مسجد سے نکل جاتے ہیں۔ یہ رویہ واضح کرتا ہے کہ امام صاحب کو مسجد میں صرف ڈیوٹی سے غرض ہے۔ وہ یہاں وقت بتانا اور چار فرض کے علاوہ کوئی عبادت ادا کرنے کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔

اس طرزِ عمل کے دو نقصان ہیں۔ پہلا یہ کہ نمازیوں کو ان سے گھلنا ملنا نصیب نہیں ہوتا۔ وہ گھلیں گے ملیں گے تو مسجد میں نہاری اور بریانی تو ڈسکس نہ ہوگی، ظاہر ہے دین ہی ڈسکس ہوگا اور لوگ کچھ نیا جان اور سیکھ سکیں گے۔ دوسرا نقصان یہ کہ جب امام عابد بھی ہو۔ اور مسجد میں آتا بھی جماعت کھڑی ہونے سے قبل ہو اور جاتا بھی تاخیر سے ہو تو ایسی مساجد میں عبادات کا ماحول قائم ہوجاتا ہے اور یہ جماعت کے بہت بعد تک بھی عبادات کی گہما گہمی سے بھرپور نظر آتی ہیں۔ اس کی زندہ مثال دیکھنی ہو تو ڈیفنس کراچی کی جامع مسجد بیت السلام میں ایک وقت کی نماز پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ وہاں مولانا عبدالستار صاحب امام ہیں جنہوں نے اس مسجد کو ایک زندہ مسجد بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اس مسجد کا ماحول ہی الگ ہے۔ اور ایسا صرف امام کے طرزِعمل سے ہے۔ جب امام مسجد میں رکتا ہے تو لوگ بھی رکتے ہیں۔ جب امام طویل عبادت ادا کرتا ہے تو لوگوں میں بھی کثرتِ عبادت کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے امام ابو یوسف رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ عالم کو سنتیں اور نوافل گھر میں نہیں، مسجد میں ادا کرنی چاہئیں۔ تاکہ لوگوں میں بھی اس کا ذوق پیدا ہو۔

امام ابویوسف رحمہ اللہ کی تلقین میں نفلی روزوں کا ذکر قابل غور ہے۔ اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ جتنی فرض عبادات ہیں ان کی اسی شکل و صورت میں نفلی عبادت بھی موجود ہے۔ مثلاً حج ہے تو ساتھ عمرہ بطور نفلی عبادت موجود ہے۔ زکوٰۃ ہے تو ساتھ صدقہ بطور نفلی عبادت موجود ہے۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال ہے کہ نفلی عبادات میں سے جو عبادت اکثر و بیشتر نظر انداز ہوتی ہے وہ نفلی روزہ ہے۔ صدقہ کسی نہ کسی درجے میں لوگ دے ہی رہے ہوتے ہیں، نوافل بھی وقتاً فوقتاً ادا ہوجاتے ہیں، عمرہ تو خیر سے مولوی کا فیشن بن چکا ہے۔ ادھر ویزا لگا ادھر وہ پوری دنیا میں ڈھول پیٹنا شروع کر دیتا ہے کہ “احقر” عمرے کے لئے جا رہا ہے۔ لیکن نفلی روزہ ایسی واحد نفلی عبادت ہےجو نظر انداز رہتی ہے۔ حتی کہ علماء میں سے بھی بہت کم ہیں جو اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ سو امام صاحب اسی جانب متوجہ کر رہے ہیں کہ نفلی روزے کی بھی عادت ڈالیے۔ یعنی جو نفلی عبادت نظر انداز ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اس کی جانب خصوصیت سے متوجہ کرا رہے ہیں۔

ہم نے یہ گزارش پہلے بھی چند کالمز میں کی ہے کہ نفلی عبادات وہ عبادات ہیں جو مسلمان کو متقی بناتی ہیں۔ اگر کوئی اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا راستہ نفلی عبادات ہی ہیں۔ ان عبادات کے ذریعے جب روح پاکیزہ ہونی شروع ہوتی ہے تو دل خود بخود گناہوں سے متنفر ہو جاتا ہے۔ جسے اللہ سبحانہ و تعالی سے آشنائی نصیب ہوجائے وہ پھر گناہوں سے اس لیے بچنے کی کوشش نہیں کرتا کہ حکمِ دین ہے۔ بلکہ اس کے اندر طبعاً گناہوں سے کراہت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ کراہت اللہ سبحانہ و تعالی پیدا فرما دیتے ہیں۔ بالکل ویسی ہی کراہت جیسی کراہت ہمیں یہ سن کر ہوتی ہے کہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے لوگ لال بیگ، کتا، بلی اور پتہ نہیں کیا کیا کھاتے ہیں۔

Related Posts