لاہور میں گزشتہ روز ایک خاتون پر ڈیجیٹل پرنٹ شدہ لباس پہننے پر مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں حملہ کیا گیا جس نے ملک میں مذہبی شدت پسندی کے معاملے کو ایک بار پھر ہوا دیدی ہے۔
یاد ہے جب بنگلہ دیش میں صرف عوامی مقام پر لوگوں کو پیشاب کرنے سے روکنے کے لیے عربی میں ’’یہاں پیشاب نہ کرو‘‘ لکھا گیا تھا تو لوگ اسے مقدس عبارت سمجھ بیٹھے تھے؟ گزشتہ روز لاہور میں بھی ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا۔زیادہ تر مسلم ممالک کے لیے عربی زبان کو مقدس سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ قرآن پاک میں لکھی گئی زبان ہے۔
واقعہ
لاہور کے علاقے اچھرہ میں پیش آنے والے ایک واقعے میں ایک خاتون نے عربی خطاطی کی کڑھائی والا لباس پہنا۔ یہ وہاں موجود لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا اور جلد ہی ایک پرتشدد ہجوم نے اس پر حملہ کر دیا۔ہوٹل کے عملے نے خاتون کو بچانے کی کوشش میں ریسٹورنٹ کے شٹر بند کر دیے اور کوشش کی کہ پولیس آ کر خاتون کو بچالے۔
یہ واقعہ ایک سے زیادہ ویڈیوز پر ریکارڈ کیا گیا، جو تیزی سے آن لائن گردش کر رہا ہے اور بہت سے صارفین کو یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس کے لباس پر اصل میں ایسا کیا لکھا گیا تھا جس نے اس طرح کے غم و غصے اور تنازع کو جنم دیا۔
لباس اور خطاطی۔
یہ بہت سے صارفین اور ناظرین کے لیے حیرانی کا باعث ہو سکتا ہے لیکن اس خاتون نے جو ڈیجیٹل لباس پہنا ہوا تھا اس پر ایک سادہ عربی خطاطی تھی، اور اس کا نام جو اردو میں لفظ حلوہ کا لفظی ترجمہ کرتا ہے۔
اس لفظ کے علاوہ دوسرے فونٹس نے اشارہ کیا کہ یہ ہمارے پاکستانی ’’ا‘‘ اور ’’ب‘‘ کی طرح عربی میں لکھے گئے سادہ فونٹس کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستانی اور توہین مذہب
جب لباس یا دیوار پر خطاطی یا عربی کی بات آتی ہے یا فیشن میں شامل ہوتی ہے تو پاکستانی اکثر اسے توہین مذہب سے جوڑ دیتے ہیں، جس سے زبردست ہجوم کے حملے یا لوگوں میں غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔جیسا کہ گزشتہ روز لاہور میں ہوا۔