پاکستان کی ابھرتی ہوئی اسٹار13 سالہ عروج فاطمہ نے محض آٹھ سال کی عمر میں گلوکاری کے کیریئر کا آغاز کیا اور شروعات میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ہے،عروج فاطمہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں مشہور گلوکار علی ظفر کے ساتھ گانا ’’ لیلی او لیلیٰ ‘‘ ریکارڈ کرایااور دو سال بعد روایتی سندھی گانا ’’ الے ‘‘ گاکرہر سودھوم مچادی۔
ایم ایم نیوز نے نوعمر اسٹار عروج فاطمہ کی زندگی اور کامیابیوں کا احوال جاننے کیلئے ایک نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال نذر قارئین ہے۔
ایم ایم نیوز: آپ کا پہلاگاناپاکستان میں کتناہٹ ہوا، کیا کبھی سوچا تھا کہ یہ گانا اتنا مقبول ہوگا ؟
عروج فاطمہ: دراصل جب میں نے اپنا پہلا گانا ’’ لیلیٰ ‘گایا تھا تو میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ یہ اتنا ہٹ ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہم نے ایک اور علاقائی زبان میں نیا گانا گانے کا فیصلہ کیا اور ہم نے دسمبر میں سندھی ثقافت کے دن کے حوالے سے سندھی کا انتخاب کیا ۔
ایم ایم نیوز:آپ نے ’الے‘ گانے کا انتخاب کیوں ؟
عروج فاطمہ: میوزک آرٹسٹ عابد بروہی جنہوں نے ’’ الے ‘‘ میں ریپ کیا ،انہوں نے گانے کی تجویز پیش کی۔ اس گانے کی موسیقی حسن بادشاہ نے تیار کی تھی۔ ان کی کاوشوں نے ’الے‘ کو اتنا مقبول بنانے میں معاون کرداراداکیا ہے۔
ایم ایم نیوز: علی ظفر کے ساتھ دونوں گانے گانے میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
عروج فاطمہ:علی ظفر بہت بڑے اسٹار ہیں، علی ظفر کے ساتھ گانے کیلئے پر جوش اور خوفزدہ بھی تھی لیکن پھر جب مجھے ان سے ملنے اور ذاتی طور پر جاننے کا موقع ملاتومیں مزید خوفزدہ نہیں ہوئی۔
ایم ایم نیوز: کبھی ایسا ہوا کہ علی ظفر نے آپ کو ڈانٹا ہو ؟
عروج فاطمہ: علی ظفر نے مجھے کبھی ڈانٹا نہیں۔ مجھے گائیکی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ علی ظفر اونچی پچ کے ساتھ گاتے ہیں اور میں ان کی پچ تک پہنچ نہیں پارہی تھی لیکن وہ مجھے دھیمے لہجے میں سمجھاتے کہ میں کس طرح اپنے لہجے کو بہتر بنا سکتی ہوں اور ان کے ساتھ مقابلہ کرسکتی ہوں۔ علی ظفر ہمیشہ میرے ساتھ دوستوں کی طرح ر ہے۔ اگر کوئی سینئر فنکار آپ کی سرزنش کرتا ہے تو یہ آپ کو بہتربنانے کیلئے ہوتا ہے۔
ایم ایم نیوز: آپ ’الے‘ کے بعد اپنی مقبولیت کو کس طرح برقرار رکھیں گی؟
عروج فاطمہ: سب سے پہلے ہمیں ہمیشہ اللہ سبحان وتعالی کا ان ساری نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو اس نے ہمیں عطاء کی ہیں۔ میں نے بہت سی مشہور شخصیات کو دیکھا ہے جو تکبر کرتے ہیں۔ ہمیں کسی بھی معاملے میں تکبرنہیں کرنا چاہئے،یہ کسی کے بھی دل پر حکمرانی کی کلید ہے۔
ایم ایم نیوز: آپ کے اہل خانہ اور دیگر لوگوں نے آپ کی گائیکی پر کیا رد عمل ظاہر کیا؟
عروج فاطمہ: میرا خاندان شروع ہی سے معاون رہا ہے۔ میرا بھائی خاص طور پر میرا سب سے بڑاسپورٹرہے اور جہاں بھی جاتی ہوں میرا بھائی ہمیشہ ساتھ ہوتاہے۔
ایم ایم نیوز: آپ نے کس عمر میں گانا شروع کیا اور کتنی زبانوں میں گانے گائے؟
عروج فاطمہ: میں آٹھ سال کی عمر سے گانا گا رہی ہوں اورپانچ زبانوں میں گاسکتی ہوں جن میں بلوچی ، سندھی ، پنجابی ، کشمیری اور پشتو شامل ہیں۔
ایم ایم نیوز:آپ کو کس کا گانا پسند ہے ؟
عروج فاطمہ: مجھے ہمیشہ سے عابدہ پروین پسند ہیں، مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا، وہ بہت عاجز انسان ہیں،میں ان کے ساتھ اپنی زندگی میں ایک بار گانا چاہتی ہوں۔
ایم ایم نیوز: آپ کوکس قسم کا سنگیت پسند ہے ؟
عروج فاطمہ: مجھے گانے میں زیادہ تر’صوفی‘ پسند ہیں لیکن سننے میں مجھے زیادہ تر راک اور تیز گانے پسند ہے۔
ایم ایم نیوز: آپ کو علی ظفر کے ساتھ ’’ لیلیٰ او لیلیٰ ‘‘ گانے کا موقع کیسے ملا؟
عروج فاطمہ: میں اسکول کے ایونٹس میں حصہ لیا کرتی تھی اور بے حد تعریف بھی حاصل کی بعد میں مجھے یونیسف کے ایک پروگرام کیلئے منتخب کیا گیا ، انہوں نے میرے گانے کی ویڈیو ریکارڈ کی اور پھر اسے لاہور میں علی ظفر کے پاس بھیجا اور اس طرح سے ’’ لیلیٰ او لیلیٰ ‘‘گانے کا موقع ملا۔