امریکا کی منافقت اور افغانستان

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے 22 سینیٹرز نے چند ماہ قبل افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی، نگرانی اور احتساب ایکٹ کا ایک بل پیش کیا، مجوزہ قانون میں ایک جامع رپورٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ کس نے افغانستان میں امریکہ کے 20 سالوں کے دوران طالبان کی حمایت کی، اگست کے وسط میں کابل پر قبضہ کرنے میں جنگجو گروہ (طالبان) کی مدد کی، اور پنجشیر وادی پر ان کے حملے کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ، یہ بل افغانستان میں کابل پر قبضے سے پہلے اور بعد میں اور پنجشیر وادی میں طالبان کے حملے میں پاکستان کے مبینہ کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی 20 سالہ طویل جنگ میں شکست پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ 20  سال پہلے کے نائن الیون حملوں کے بعد سے سیاسی اور عسکری قیادت میں اپنے بارے میں صحیح خود شناسی اور احتساب کرنے کی پختگی کی کمی ہے۔ مجھے یہ کہنا قابلِ نفرت محسوس ہوتا ہے  لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کی یہ مسلسل کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے کبھی صحیح سبق نہیں سیکھتی اور پاکستان سمیت دیگر ممالک پر الزام تراشی کا خوفناک رجحان رکھتی ہے۔

بہتر ہوگا کہ امریکی کانگریس افغان نیشنل آرمی کو تربیت دینے میں ملوث ممالک اور لوگوں کی تحقیقات کرے، کیونکہ افغان فوج کا اچانک پسپا ہو جانا افغان طالبان کے ہاتھوں کابل کے زوال کا ایک بڑا سبب تھا۔ امریکی حکومت نے 20 سال طویل جنگ میں افغان فوج کی تربیت پر تقریباً 85 ارب ڈالر خرچ کر ڈالے۔ یہ امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی میں سے ایک بہت بڑی رقم تھی جو بے کار ضائع ہوئی کیونکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ طالبان کے سامنے آتے ہی افغان فوج ایک گولی چلائے بغیر ہتھیار ڈال دئیے اور راضی خوشی پسپا ہوگئی۔ 

کیا یہ امریکی فوج، نیٹو اور بھارتی فوج نہیں تھی جس نے افغان فوج کو تربیت دی؟ افغان فوج کو تربیت دینے میں پاکستان کا کردار اہم نہیں تاہم بھارت نے انہیں تربیت دی۔ 2004 کے بعد سے، بھارتی فوج نے افسران سمیت افغان نیشنل آرمی کے ہزاروں اہلکاروں کو تربیت دی۔ اگر میں امریکی ٹیکس دہندہ ہوتا تو میں امریکی کانگریس سے اس بات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا کہ امریکی حکومت نے بھارت میں افغان فوج کے اہلکاروں کی تربیت کیلئے بھارتی حکومت اور فوج کو کتنی رقم ادا کی لیکن امریکی کانگریس میں کوئی بھی یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ آخر کیوں؟معذرت کے ساتھ کہنا پڑے گا لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بھارتیوں نے افغان فوجیوں کو تربیت دینے کی آڑ میں اپنے قریبی اتحادی امریکہ کو مالی اعتبار سے دھوکہ دیا۔

دو امریکی جرنیلوں اور وزیر دفاع کو امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے یہ سنتے ہوئے دیکھ کر تعجب ہوا کہ وہ افغان فوج کے فوری خاتمے اور بغیر لڑائی کے کابل پر طالبان کے قبضے پر کتنے حیران تھے۔ یہ کوئی کھلا راز نہیں ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان میں خدمات انجام دینے والے بہت سے امریکی فوجی اس طرح کے تباہ کن انجام کی پیش گوئی کرتے رہے لیکن سویلین اور عسکری قیادت میں سب سے ذہین دماغ ایسا نہیں کر سکے، کیوں؟

کیا امریکی کانگریس اور حکومت اپنے فوجی اور سویلین ٹرینرز اور بھارتی تربیت کاروں کو افغان فوج کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ٹھہرائے گی؟ یا پھر صفائیاں پیش کی جائیں گی؟ میرے خیال میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا ایسے مشکل سوالات کرنے کے بجائے امریکا کیلئے ایک آسان کام ہے۔

میں امریکی عوام، امریکی حکومت اور کانگریس کو یاد دلاتا ہوں کہ یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے دوحہ میں امن معاہدے کیلئے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے حکومت پاکستان سے مدد مانگی۔ مزید برآں، ان مذاکرات کو آسان بنانے کیلئے پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست پر اس عمل کے ایک حصے کے طور پر ملا برادر سمیت 3 اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہائی دے دی۔ لہٰذا جب امریکی حکومت طالبان سے امن کی بات کرنا چاہتی تھی تو پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے کا الزام کیوں لگایا جائے؟ سچ کہیے تو ایک بار جب امریکی حکومت افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے بیٹھی تو افغانستان کی جنگ ختم ہوگئی، اور امریکا نے افغان طالبان کو دشمن سے بدل کر امن میں ایک جائز شراکت دار بنا دیا۔

سینیٹ کی آرمز سروسز کمیٹی کی سماعتوں کے دوران چند ماہ قبل سینیٹر کرس وان ہولن نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے اس بات کی تصدیق کی کہ دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا مرکز افغانستان سے امریکی انخلاء  تھا جبکہ اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا کہ مذاکرات کی اجازت امریکیوں نے دی۔ کہا گیا کہ طالبان افغان فورسز پر حملہ کریں لیکن امریکی فوجیوں پر نہیں، اور پھر امریکا نے افغانستان کے مستقبل کیلئے بات چیت کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے سینیٹر کرس وان ہولن کی پوچھ گچھ میں یہ بھی اعتراف کیا کہ طالبان نے اس کے بعد کابل حکومت پر 5000 طالبان جنگجوؤں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جن میں سے اکثر کابل پر حملے میں ملوث ہیں۔

اگر امریکی کانگریس کی سماعتوں کا مقصد ایمانداری کے ساتھ کسی کو افغانستان میں ہونے والی شکست کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے تو یہ امریکی سویلین اور فوجی قیادت کا ایک ناکام عمل ہے، جیسا کہ میرے نقطہ نظر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قانون سازوں کیلئے ایک ہنگامہ خیز سیشن بنتا جا رہا ہے تاکہ ناکامیوں کیلئے پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔

مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کس طرح 2  امریکی جرنیل اپنی شہادتوں میں اپنے کمانڈر انچیف صدر جو بائیڈن کو 20 سال تک امریکی عوام سے جھوٹ بولنے کا ذمہ دار ٹھہرا کر ماضی کے صدور بش، اوباما اور ٹرمپ کے ساتھ ملامت کا شریکِ کار بنانے سے گریزاں ہیں۔ افغان جنگ کی نام نہاد کامیابی کے حوالے سے جنرل ڈگلس میک آرتھر نے مئی 1962 میں ویسٹ پوائنٹ میں ملٹری اکیڈمی سے اپنے خطاب میں فرض، عزت اور ملک کے الفاظ استعمال کیے تو اس کا کیا مطلب تھا؟ کیا امریکی فوجی قیادت کا اخلاقی معیار اتنا گر گیا ہے کہ جرنیل اپنی نوکری اور خود کو احتساب سے بچانے کی کوشش کرنے کیلئے سیاستدان بن گئے؟

میرا امریکی کانگریس کو مشورہ ہے کہ اگر وہ حقیقی احتساب کرنا چاہتے ہیں تو وہ افغانستان پیپرز کے انکشافات سے آغاز کریں اور پاکستان کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت کو موردِ الزام ٹھہرائیں۔ 

Related Posts