تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ انسان نے گروہوں یا قوموں کے درمیان تنازعات اور تصادم کو حل کرنے کے لیے جنگیں کی ہیں۔ وہ جنگ کو سماجی طور پر قبول شدہ شکلوں کے مطابق رواج یا قانون میں تسلیم شدہ ادارہ سمجھتا ہے۔ زمین، محنت اور وسائل کی تلاش نے میدان جنگ میں لاکھوں انسانوں کو مار ڈالا ہے اور بے شمار دوسرے لوگوں کو متاثر کیا ہے جو حکمرانوں کے مفاد پرستانہ فیصلوں کا شکار ہیں۔
ماہرین سماجیات نے جنگ کی مختلف اقسام کی نشاندہی کی ہے۔ طاقتور ریاستوں کے بے اختیار لوگوں کے ساتھ مسلح تصادم کو امن یا فوجی مہمات کہا جاتا ہے۔ چھوٹی ریاستوں کے ساتھ، انہیں مداخلت یا انتقامی کہا جاتا ہے۔ اور گروہوں کے اندر انہیں بغاوت کا نام دیا جاتا ہے۔ جنگ کو آج کل قومی پالیسی کا ایک عقلی آلہ سمجھا جاتا ہے۔
کمیل سومرو کے مزید کالمز پڑھیں:
بیسویں صدی نے ایٹمی ہولوکاسٹ کے سائے میں دو عالمی جنگوں کے بعد کے حالات دیکھے۔ ایسے انسانی رویے کے اسباب، طرز عمل اور روک تھام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ان جنگوں کو بالآخر ریاستی پالیسی کی عقلی شکل نہیں سمجھا جاتا تھا اور نظریہ سازوں کا خیال تھا کہ جدید جنگ صرف اسی صورت میں شروع کی جانی چاہیے جب ریاست کے اہم مفادات داؤ پر لگے ہوں، مثال کے طور پر بقاء کے خطرات درپیش ہوں تو جنگ کی جاسکتی ہے۔
کچھ نظریہ سازوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر جنگ کے کسی بھی عقلی کردار سے انکار کیا اور اسے ایک بلائے ناگہانی یا سماجی آفت سمجھا، خواہ یہ کسی ایک قوم کی طرف سے برپا ہو یا پوری انسانیت کو اس سے تکلیف ہوتی ہو۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں، انسان نے امن کی تحقیق کو جنم دیا، جو اب یونیورسٹیوں میں سماجی علوم میں ایک بڑا علم سمجھا جاتا ہے۔ یہ جنگ کی ابتداء کے تجزئیے اور روک تھام کے مقصد کے ساتھ مضبوط ارتکاز کو یکجا کرتا ہے۔
دنیا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا، جس سے جنگ کی تفہیم اور بھی ضروری ہو گئی۔