ہندوستانی مسلمانوں کے حالات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مودی حکومت میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ 1857 اور 1947 کے مقابلے میں زیادہ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں کیونکہ ان کی مذہبی رسومات اب خطرے میں ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے نماز پڑھنے سے لے کر مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے تک اسلامی احکام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

تازہ ترین واقعہ میں، ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے ریاست راجستھان کے شہر کرولی میں پیش آیا، جہاں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور دیگر املاک کو آگ لگا دی گئی۔ ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے نئے سال کا جشن منانے کے لئے ایک ریلی مسلمانوں کے علاقے سے گزاری گئی، اس دوران ریلی میں شامل ہندو انتہاء پسندوں نے تشدد بھڑکانے کے لیے ہندوتوا کے گانے بجائے، جبکہ 40 سے زائد گھروں کو نذر آتش کردیا، جس کے نتیجے میں 35سے زائد افراد زخمی بھی ہوگئے۔

فرقہ وارانہ فسادات کی اطلاعات پہلے سے موجود تھیں لیکن مقامی سیکورٹی حکام کی ملی بھگت سے بی جے پی حکومت نے اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا، ریاستی مشینری پوری طرح اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہی، ایسے واقعات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نئے نہیں ہیں جو خوف و ہراس کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے اتحاد کو استثنیٰ کے ساتھ اقلیتوں کے خلاف تشدد کرنے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے۔

کرناٹک میں، تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے، جس کی وجہ سے انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ عدالت نے ہندو گروپوں کے خوف سے پابندی ہٹانے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس کے نتیجے میں کئی مسلمان لڑکیاں گزشتہ ماہ اپنے امتحانات میں شریک نہیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ مسکان خان، جو حجاب پہننے کے حق کے خلاف احتجاج کے بعد مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں، سالانہ امتحانات میں شریک نہیں ہوئیں۔

بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں انتہا پسند ہندو راہب یوگی کی حکومت دوسری مدت کے لیے اقتدار میں ہے۔ انتہائی اقدامات کے علاوہ، اس نے بتدریج تاریخی اضلاع کے نام تبدیل کرکے علی گڑھ، سلطان پور، فیروز آباد اور شاہجہا پور کے نام سے مسلم شناخت کو مٹانے کے لیے اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں۔

مسلمانوں کو اب اپنی اسلامی روایات، طرز زندگی اور اپنی برادریوں کا ہندو انتہا پسندوں کے بڑھتے ہوئے جابرانہ اقدام کے خلاف دفاع کرنا ہوگا، مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومت کی تعصبانہ کارروائیاں تکلیف دہ ہیں لیکن اس کے حامیوں کے خلاف کارروائی کا نہ ہونا عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔

Related Posts