پنجاب بھر میں غیرت کے نام پر 8 سال کے دوران 2400 سے زائد افراد قتل ہوئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

honor killing in punjab
پنجاب بھر میں غیرت کے نام پر 8 سال کے دوران 2400 سے زائد افراد قتل ہوئے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور:پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، 2011 سے 2018 کے دوران صوبہ بھر میں مجموعی طور پر 2 ہزار 424 افراد غیرت کی بھینٹ چڑھے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے مرتب شدہ اعداد و شمار کے مطابق فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیگ سنگھ اور چنیوٹ کے علاقوں پر مشتمل فیصل آباد ریجن غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں سر فہرست رہا جہاں گزشتہ آٹھ سال کے دوران 527 افراد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
سرگودھا ریجن میں سرگودھا، خوشاب، میانوالی اور بھکر کے علاقے شامل ہیں، 338 مقدمات کے ساتھ سرگودھا ریجن دوسرے نمبر پر رہا۔ ملتان، لودھراں، خانیوال اور وہاڑی کے علاقوں پر مشتمل ملتان ریجن میں 271 واقعات رونما ہوئے۔ اعدادوشمار کے مطابق ملتان ریجن غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں تیسرے نمبر پر رہا۔
ڈی جی خان، راجن پور، مظفرگڑھ اور لیہ کے علاقے ڈی جی خان ریجن میں آٹھ برس کے دوران 269 افراد کو فائرنگ، چھریوں اور کلہاڑی کے وار کرکے غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
گوجرانوالہ، حافظ آباد، گجرات، منڈی بہاوالدین، سیالکوٹ اور نارووال کے علاقوں پر مشتمل گوجرانوالہ ریجن میں غیرت کے نام پر قتل کے 257 واقعات رونما ہوئے۔
لاہور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور قصور پر مشتمل لاہور ریجن میں گزشتہ آٹھ سال کے دوران مجموعی طور پر 239 افراد غیرت کی بھینٹ چڑھے۔
بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یارخان کے علاقوں پر مشتمل بہاولپور ریجن میں 221 جبکہ ساہیوال، پاکپتن اوراوکاڑہ کے علاقوں پر مشتمل ساہیوال ریجن میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے 221 مقدمات درج کیے گئے۔
راولپنڈی، اٹک، جہلم اور چکوال کے علاقوں پر مشتمل راولپنڈی ریجن میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بہت کم ہوئے۔ یہاں گزشتہ آٹھ برس کے دوران اس ریجن میں صرف 81 افراد غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔
ماہرین نفسیات اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کی زیادہ تر وارداتیں دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہوتی ہیں۔ چونکہ پسماندہ اور دیہی علاقوں میں تعلیم اور بہتر معیار زندگی کا فقدان ہوتا ہے اس لئے لوگ طیش میں جلدی آ جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر انسانی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
ماہرین نفسیات اور سماجی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معاشرتی اقدار، رسم و رواج، لوگوں کا طرز زندگی اور منفی سوچ ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو دوسروں کے حقوق کے حوالے سے بھی آگاہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔

Related Posts