حامد میر کی اشتعال انگیز تقریر

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معروف صحافی اور بلاگر پر حملے سے ملک کے ریاستی اداروں پر سخت تنقید کرنے والے اسد طور پر بحث چھڑ گئی ہے۔ منگل کی شب اسد طور پر نامعلوم حملہ آوروں نے اسلام آباد میں ان کے اپارٹمنٹ میں حملہ کیا اور دھمکیاں دیں۔

ممکن ہے کہ اسد طور کو تنبیہ کی گئی ہو یا دھمکی آمیز پیغامات دئیے گئے ہوں، لیکن اب جو عناصر تنقیدی آواز کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ان کے پاس صحافیوں کو لاپتہ کرنے یا وحشیانہ حملوں کا مرتکب ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

بعد ازاں، وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں کچھ میڈیا کے لوگوں نے فوج اور ریاستی اداروں پر الزامات اس لیے لگائے تاکہ وہ بیرونِ ملک میں امیگریشن اور سیاسی پناہ حاصل کرسکیں۔ وزیرِ اطلاعات کے اس دعوے کو معروف صحافی حامد میر نے بد قسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر حملہ ہوا تھا، میں اب بھی پاکستان میں ہوں۔ مطیع اللہ جان پر حملہ ہوا، وہ پاکستان میں ہیں اور ابصار عالم بھی پاکستان میں موجود ہیں۔

معروف ٹی وی میزبان حامد میر نے بادی النظر میں مسلح افواج اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں ثابت کروں گا کہ آپ پاکستان میں بیٹھ کر بھارت، اسرائیل اور امریکا کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یقیناً حامد میر نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی کہ آرمی چیف سمیت پاک فوج بھی تنقید سے بالاتر نہیں جنہیں جائز اور مخلصانہ تنقید سے دور نہیں رہنا چاہئے۔

قبل ازیں ایک مایوس کن اقدام کے طور پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مسلح افواج کا جان بوجھ کر مذاق اڑانے والوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان پینل کوڈ اور ضابطۂ فوجداری سے متعلق قانون 1898ء میں ترمیمی بل کی منظوری دے دی جس میں کہا گیا کہ جو بھی اس جرم کا مرتکب ہوا ، اسے 2 سال قید یا 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی قانون سازی سے ایک غلط پیغام جنم لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ حکومت کا بڑا مقصد اپوزیشن رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جائز تنقید کو روکنا ہے جو سویلین امور میں فوج کے کردار پر سوالات کرتی ہیں۔

ایسی قانون سازی سے یہ دلیل بھی مضبوط ہوجاتی ہے کہ موجودہ حکومت ایک ہائبرڈ یا کٹھ پتلی حکومت ہے۔ ایسا بل سویلین معاملات میں فوج کی مبینہ مداخلت پر کیے گئے جائز سوالات کو بھی غیر قانونی قرار دینے کا سبب بنے گا جبکہ نظامِ جمہوریت میں ریاست کے ہر ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگرملک کے وزیرِ اعظم پر تنقید کی جاسکتی ہے تو پاک فوج اور اس کے سربراہ پر بھی تنقید کی جاسکتی ہے۔

پاک فوج کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا، قانون کی تعمیل اور ادارہ جاتی تعاون جاری رکھنا ہوگا۔ بدعنوانی کے مرتکب کسی بھی فرد کو سزا دینا ضروری ہے اور جس پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہو، اس کا دفاع بھی کرنا ہوگا۔ فوج کے کردار کے بارے میں ایک قومی بحث آئینِ پاکستان کے تحت کسی بھی قابلِ قبول طریقے سے شروع کی جاسکتی ہے۔

 

Related Posts