جنیوا میں منعقدہ گلوبل رفیوجی فورم سے خطاب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترش نے پوری دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر مہاجرین کی مدد کے لیے زیادہ مالی امداد فراہم کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف براعظموں میں مہاجرین کی اکثریت کو زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ دنیا بھر میں مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد کو اپنے ہاں پناہ دینے والے ممالک کی اپنی اقتصادی حالت درمیانے درجے کی ہے، جن میں یوگنڈا اور پاکستان جیسی ریاستیں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں مہاجرین کی تعداد71 ملین ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ مہاجرین آباد ہیں، پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں جس کی وجہ سے ملک کو تاریخ کے سب سے بڑے مہاجر مسائل کا سامنا رہا ہے۔
اس حوالے سے عالمی فورم میں شریک وزیراعظم پاکستان عمران خان کاکہناتھا کہ پہلےعالمی مہاجرین فورم کےانعقاد پربہت خوش ہوں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین 40 سال سےمقیم ہیںاورپاکستانی قوم نے بہترین انداز میں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے پناہ گزینوں کے عالمی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں انڈیا کے مظالم کا ذکر کیا اور کہا کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑے بحران کے خدشات ہیں۔اگست میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں حال ہی میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے ممکن ہے کہ دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔
وزیر اعظم نے خبردار کیا کہ مودی حکومت کے اقدامات سے ایک نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ نئے تنازعات کے نتیجے میں پاکستان مزید مہاجرین کو روکنے کے قابل نہیں ہوگا۔
دوسرے ممالک میں بڑی آبادی کی میزبانی کرنے والے ممالک میں ترکی ، ایتھوپیا ، کوسٹا ریکا اور جرمنی شامل ہیں۔ ترکی میں دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادی ہے جس میں لگ بھگ 7.3ملین شامی باشندے آباد ہیں۔
جرمنی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے دس ممالک میں واحد صنعتی ملک ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اتنی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کی جانب سے مہاجرین کو پناہ دینے کا رجحان ترقی یافتہ مالک کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ باوسائل اور ترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر پناہ گزینوں کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں اور مہاجرین کیلئے وسائل مہیاکرنے کیلئے آگے آنا چاہیے۔
اس وقت 85 فیصد مہاجرین کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں جو ان کی میزبانی کے لئے خود بھی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں ، کئی ممالک مہاجروں کو پناہ دینے سے گریزاں ہیں جبکہ کیمپوں میں مقیم مہاجر بچوں کو تعلیم کی فراہمی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
اقوام متحدہ کو مہاجرین کی آباد کاری اور ان پناہ گزینوں کے کیلئے وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دنیا میں پرتشدد واقعات کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک دنیا میں پرتشدد واقعات جاری رہیں گے مہاجرین کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔