جنرل محمود کی مونچھیں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی کے ایسے ورکرز یوتھیے کہلاتے ہیں جو کسی تعمیری سیاسی مکالمے کے بجائے گالم گلوچ اور الزام بازی سے کام لیتے ہیں جبکہ نون لیگ کے ایسے ہی کارکن پٹواری کا خطاب رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وہ ورکرز جو سلجھے سیاسی ورکرز کی شناخت رکھتے ہیں، انصافیے کہلاتے ہیں جبکہ اسی طرح کے دوسری جانب کے کارکن نون لیگیے پکارے جاتے ہیں۔

یوتھیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے دماغ میں ہر وقت گند بھرا رہتا ہے۔ سو کچھ بھی بکتے رہتے ہیں اور رسوائی سمیٹتے جاتے ہیں۔

پٹواریوں کا مسئلہ کچھ اور طرح کا ہے۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کی مثال قوال کے پیچھے بیٹھے ہمنواؤں کی ہے۔ قوال گائے گا تو یہ بھی پیچھے سے الاپ دیتے جائیں گے۔ لیکن اگر گائیک ہی اسٹیج پر موجود نہیں تو یہ طبلہ، ڈھولک اور ہارمونیم سامنے رکھے یوں انتظاری ہوتے ہیں جیسے شہر کے کچھ مخصوص مقامات پر سڑک کنارے صبح صبح مزدور بیلچے اور دیگر آلات سامنے دھرے کسی ٹھیکیدار کے منتظر پائے جاتے ہیں۔

پٹوارستان میں اس وقت تین گائیک ہیں۔ ایک استاد بڑے شریف خان صاحب، دوسرے استاد چھوٹے شریف خان صاحب اور تیسری “دوشن آرا بیگم”۔ ایسا نہیں ہے کہ استاد بڑے شریف خان صاحب نے اپنی گائیکی سے مینہ برسانے، شاہی محل کے شیشے توڑنے، یا چراغ روشن کرنے جیسے معجزے دکھا رکھے ہیں تو ہم ان معجزوں کے سبب ان کی عظمت کے قائل ہیں۔

ہماری نظر میں وہ “بڑے” بس اس لئے ہیں کہ اب پیچھے کوئی بڑا بچا نہیں ہے۔ ورنہ آج کل وہ اپنی بچھڑی محبوبہ یعنی لیلائے اقتدار کی یاد میں جو”راگ بھیروں” گا رہے ہیں، اسی کا حال ہی دیکھ لیجئے۔ اس راگ کی ہر تان اس بات کر آکر ٹوٹتی ہے کہ “کسی بھی وزیر اعظم کو وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ حساب دینا ہوگا کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟” یہ راگ کتنا بے سرا ہے اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ تین وزرائے اعظم کو ذلیل کروانے اور نکلوانے میں تو خود استاد بڑے شریف خاں صاحب کے ہی راگ درباری کا حصہ ہے۔

سو یہ حساب مانگنے والوں کی فہرست میں نہیں بلکہ دینے والوں کی لسٹ میں درج ہونے کے لائق ہیں۔ مگر ہم ان کی اس بے سری گائیکی پر “واہ ! واہ !” نہ کریں تو کریں کیا ؟ کان بے سری ہی سہی مگر کسی گاتی آواز کو ترستے ہیں اور سیاسی موسیقی کے میدان میں “بھٹیارہ گھرانا” ہی واحد آپشن بچا ہے۔ اس بات سے تو آپ بھی انکار نہیں کر سکتے کہ استاد بڑے شریف خاں ہیں بیشک بے سرے مگر سیانے بہت ہیں۔ ہر بار اپنے راگ بھیرویں کے بعد استاد چھوٹے شریف خاں کو آنکھ مارکر گیٹ نمبر چار پر راگ درباری چھیڑنے کا اشارہ ضرور کرتے ہیں۔ چھوٹے استاد ابھی نچلے سروں والی استھائی پر ہی ہوتے ہیں کہ اندر سے آواز آتی ہے۔

ابے چپ ! ! !

یہ دیکھ کر استاد بڑے شریف خاں طیش میں آکر بھٹیارہ گھرانے کی تیسری صف میں کھڑی “دوشن آرا بیگم” کو آگے کر دیتے ہیں۔ دوشن آرا بیگم کی لیاقت و ریاضت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ وہ گانا شروع ہی سرگم سے کرتی ہیں مگر چونکہ نوجوانوں کی دلچسپی کا سارا سامان رکھتی ہیں سو پٹواری انہیں “کراؤڈ پُلر” سمجھ کر خوش رہتے ہیں۔ ورنہ پورا عالمِ ترنم تورم میں آکر چونک اٹھتا ہے کہ ہیں ! ! !ا سٹارٹ ہی سرگم سے ؟ ؟ ؟ یوں ہر طرف بحث یہ چھڑ جاتی ہے کہ دوشن آرا بیگم نے جو حرکت کی ہے اس کے نتیجے میں بھٹیارہ گھرانے کا مستقبل مزید کتنا تاریک ہوا ہے ؟ اور اس بحث کے دوران پورا پٹوار خانہ اس بات پر خوش رہتا ہے کہ “ہم آج بھی میڈیا میں اِن ہیں۔

ہم آج بھی سیاسی گائیکی میں ریلیونٹ ہیں” یہ کوئی نہیں سوچتا کہ دوشن آرا بیگم کراؤڈ ہی جمع کر رہی ہیں۔ کامیابیاں جمع کرنے میں اب تک ناکام ہیں۔ یہ دوشن آرا بیگم کی سرگم کا ہی کمال ہوتا ہے کہ بدمزگی کا تاثر زائل کرنے کو کچھ عرصے کے لئے پورا بھٹیارہ گھرانا منظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ اور انتظار شروع کر دیتا ہے “بڑے پروموٹر جی” کی ایسی تصویر شائع ہونے کا جس میں وہ تبسم فرماتے نظر آرہے ہوں۔ جوں ہی ایسی کوئی تصویر شائع ہوجائے۔ استاد بڑے شریف خاں پہلے تو لندن والے فلیٹ کی دہلیز سے گاڑی تک چہرے پر ماسک چڑھائے ایک خاموش چہل قدمی ریکارڈ کرواتے ہیں۔ اگلے دن ایک بار پھر عین اسی وقت فلیٹ سے برآمد ہوتے ہیں اور ازراہ شفقت کسی پٹواری صحافی سے فرمائشی سوال لے لیتے ہیں۔

سر ! اگلا کنسرٹ کب ہوگا ؟
جلد ہوگا، انشاء اللہ بہت جلد حساب ہوگا۔

یوں پٹواری سمجھ جاتے ہیں کہ “راگ بھیرویں” پھر سے چھڑنے کو ہے۔ سو یہ ہمنوا والی ڈیوٹی سنبھالنے کے لئے طبلے، ڈھولک اور ہارمونیم پر کپڑا مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر سب سے دلچسپ دور یہ خاموشی والا دور ہی ہوتا ہے۔ جس میں کسی کو استاد بڑے شریف خاں لندن والے فلیٹ سے آتے جاتے دکھتے ہیں، اور نہ ہی دوشن آرا بیگم کی کوئی ٹویٹ شویٹ نظر آتی ہے۔ یہ دور پٹواری “ہمنواؤں” پر بہت گراں گزرتا ہے۔

دھندہ انہیں ایک ہی یعنی ہمنوا والا آتا ہے، سو انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کریں تو کریں کیا؟ ایک دو دن پانچ پانچ کی ٹکڑیوں میں کسی ریستوران پر بیٹھ لیتے ہیں۔ اور وہاں یہ پانچ لوگ آدھا کلو کڑہائی کھا کر اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال لیتے ہیں۔ ایک دو دن سوشل میڈیا پر صبح بخیر، شب بخیر سے جوڑ کھاتی تصاویر اپلوڈ کرکے گزار لیتے ہیں۔

ایک دو دن کسی عرب شہزادے کے سنڈاس کی ٹوٹیاں فیس بک پر شیئر کرکے اپنی حسرتوں کا رونا رو لیتے ہیں۔ لیکن پھر جلد انہیں خیال آتا ہے کہ ہم تو مشن سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں یہ دوشن آرا بیگم کے چپڑاسیوں کے وٹس ایپ پر دستک دینی شروع کر دیتے ہیں۔ تنگ آکر وہ انہیں ٹرک کی کسی ایسی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں جس سے انہیں اپنے مشن سے جڑے رہنے والی فیلنگز آنی شروع ہوجاتی ہیں۔

گزشتہ روز انہیں ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا جس کے پیچھے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود کی دو تصاویر تھیں۔ ایک میں ان کی مونچھیں تھیں جبکہ دوسری میں داڑھی۔ اور ٹاسک انہیں یہ دیا گیا کہ اس کی داڑھی کا مذاق اڑاؤ، اس سے جمہوریت کو تقویت ملے گی” سو ااچانک ہی ایک ساتھ ایسی پوسٹیں آنی شروع ہوگئیں جن میں جنرل محمود کے اس کردار کو زیر بحث نہیں لایا گیا تھا جو انہوں نے جنرل مشرف کے لئے ادا کیا تھا۔ بلکہ داڑھی اور تبلیغی جماعت ٹارگٹ تھے۔

سوال تو بنتا ہے کہ جنرل محمود کے جمہوریت پر شب خون والے کردار کے بجائے ان کی داڑھی اور تبلیغی جماعت ہی سب کا ہدف کیوں بنی ؟ کیا انہوں نے 12 اکتوبر کو وزیر اعظم کی مشکیں اپنی مونچھوں سے کسی تھیں ؟ یا وہ اس لئے سزا سے بچے ہوئے ہیں کہ آئین نے داڑھی اور تبلیغی جماعت والے کو استثنیٰ دے رکھا ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر داڑھی اور تبلیغی جماعت ہی ایک سیاسی جماعت کا نشانہ کیوں بنی ؟۔

ہم بتاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد دیسی لبرلز “ریفیوجیز” کی حیثیت سے نون لیگ میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ اور وہاں ان کے قیام اور طعام کا انتظام پرویز رشید اور دوشن آرا بیگم نے ہی سنبھال رکھا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پچھلے بیس سال مذہب اور مذہبی علامات کو ہی ٹارگٹ کرتا رہا ہے۔ یہ سب کو باور کراتا رہا ہے کہ داڑھی والا کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور حجاب والی ایبنارمل ہوتی ہے۔

یہ لوگوں کو یہ بھی بتاتا رہا ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور مولوی اب تک شلوار اور ٹخنے میں ہی الجھا ہے۔ اب ایسے میں جب چاند پر پہنچنے والے براستہ کابل اسی مولوی کے ہاتھوں ذلیل ہوکر واشنگٹن پہنچ گئے ہوں اور افغانستان سے ایسی تصاویر روز شائع ہورہی ہوں جن میں داڑھی اور پگڑی والے سے ملاقات کے لئے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ڈیبرا لیونز کو ہی نہیں بلکہ کابل میں رپورٹنگ کرنے والی مغربی خاتون صحافیوں کو بھی سر ڈھکنا پڑ رہا ہو تو پٹوارخانے میں بیٹھے ریفیوجیز کو مرگی کے دورے تو پڑنے ہیں۔

لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر تک منجمد ہیں۔ جس ملک کے پاس کوئی مضبوط ادارے اور مسلح افواج بھی نہیں ہیں۔ جس کی حکومت کا ابھی مستقبل بھی امکانات اور اندیشوں کے مابین لٹکا ہے۔ اس ملک میں اترتے ہی دنیا کے طاقتور ممالک کی خواتین نمائندوں کو سر کیوں ڈھکنا پڑتا ہے ؟۔ اور کیا وجہ ہے کہ جب انہی ممالک کے مرد حکام ہمارے ہاں آئیں تو ان کی تقریبات میں شرکت کے موقع پر ہماری خواتین میں خود کو زیادہ روشن خیال ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے ؟ اور اس مقابلے میں سارا زور ہماری درباری خواتین صرف بھی لباس میں کمی اور اپنی ثقافت سے دوری پر ہی کرتی نظر آتی ہیں ۔ جن کی عورت کو افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتے وقت سر ڈھکنے پر “مجبور” ہونا پڑتا ہے۔

ان کے آگے ہم اتنے بے بس کیوں ہیں کہ ہماری بچی کو انہیں اپنی کم لباسی سے متاثر کرنا پڑتا ہے ؟ یہ خود داری اور غلامی کے دو بڑے مظاہر ہیں۔ کابل اور اسلام آباد کے مناظر اس حقیقت کو ہی عیاں کرتے ہیں کہ جب آپ میں قومی خود داری اور غیرت موجود ہو تو پھر آپ کے 10 ارب اثاثے منجمد کرنے والے بھی آپ سے آپ کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ لیکن جب آپ پھدک تو ایٹمی ظاقت ہونے پر رہے ہوں لیکن خود داری اور قومی غیرت ناپید ہو تو پھر مشل اوباما سے ملتے ہوئے دوشن آرا بیگم کو بھی سر ننگا رکھنا پڑتا ہے۔اور وہ بھی صرف اس لئے تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ ماں باپ بیشک پکے مشرقی تہذیب سے جڑے ہیں لیکن مکین دوشن آرا بیگم بھی لنڈا بازار کی ہی ہیں !۔

Related Posts