کیا جنرل عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے پر برقرار رہ سکیں گے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا جنرل عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے پر برقرار رہ سکیں گے؟
کیا جنرل عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے پر برقرار رہ سکیں گے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ پاک فوج کے اعلیٰ آفیسر کے طور پر قوم کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہے جس کے بعد چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے ساتھ ساتھ انہیں وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا اہم ترین عہدہ دیا گیا۔

یہی عہدہ قبل ازیں فردوس عاشق اعوان کے پاس رہا جو بوجوہ اِس عہدے پر برقرار نہ رہ سکیں جن کے بعد یہ ذمہ داری چیئرمین سی پیک اتھارٹی کو تفویض کی گئی لیکن آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے پر برقرار رہ سکیں گے؟َ

آئیے اِسی سوال کے مختلف زاویوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی غور کرتے ہیں کہ بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ نے ملک کیلئے کیا خدمات سرانجام دیں؟ اور ان پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات جنہیں انہوں نے سختی سے رد کیا، وہ کیا ہیں۔

عاصم سلیم باجوہ بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی اور قانونی مینڈیٹ

بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ قانونی طور پر چیئرمین سی پیک اتھارٹی نہیں رہے کیونکہ وہ آرڈیننس جس کے تحت سی پیک کو قانونی تحفظ دیا گیا، ختم ہوگیا ہے۔

انتظامی بنیادوں پر تو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کوئی الگ نہیں کرسکتا لیکن قانونی طور پر سی پیک اتھارٹی اب  قانونی مینڈیٹ کے بغیر کام کرے گی۔

آئینِ پاکستان کے تحت اتھارٹیز قائم کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی طرف سے قانون سازی ضروری ہوتی ہے جس کیلئے انتظامی ہدایت نامے عموماً جاری نہیں کیے جاتے۔ 

قبل ازیں چیئرمین سی پیک اتھارٹی نے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے خود عوام کو آگاہ کیا کہ وزیرِ اعظم نے بطور معاونِ خصوصی ان کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں ہے۔ 

اپوزیشن کا مؤقف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر ایاز صادق کے مطابق سی پیک اتھارٹی کا آرڈیننس قانونی طور پر ختم ہوچکا ہے۔ اگر کوئی پارلیمانی پینل کی کارروائی کا مشاہدہ کرنا چاہے تو پچھلی نشست پر بیٹھ کر ایسا کرسکتا ہے۔

حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے پارلیمان میں حکومتِ وقت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو سی پیک کے کاموں کی نگرانی کرسکے۔  کمیٹی کے ممبران میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین شامل ہوسکتے ہیں۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سی پیک جیسے ادارے کیلئے اپوزیشن کی خواہش غالباً یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ممبران اپوزیشن کی صفوں سے بھی حاصل کیے جائیں جس سے ادارے میں غیر جانبداری اور احتساب بھی ممکن ہوسکے گا۔ 

سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کے مقاصد

رواں برس ہی سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی میعاد میں 4 ماہ کی توسیع کی گئی تھی، سی پیک اتھارٹی آرڈیننس گزشتہ برس اکتوبر کے دوران جاری کیا گیا۔ 

وزیرِ اعظم عمران خان کے  چین کے دورے سے 1 روز قبل ہی گزشتہ برس اکتوبر میں سی پیک اتھارٹی آرڈیننس جاری کرنے کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک ) کو تیز کرنا تھا۔

یہ منصوبہ پاکستان کو بحیرۂ عرب کے راستے سے چین سے جوڑنے، سڑکوں اور ریلوں کا جال بچھانے سے متعلق ہے جس پر لاگت کا تخمینہ کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں امریکی ڈالرز میں لگایا گیا ہے۔

سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بعض ذرائع سے حاصل خبروں کے مطابق چینی حکام کو سی پیک پر پاکستان کے رویے پر تحفظات تھے، آرڈیننس سے قانونی مکینزم وضع کرکے پاکستان کی پراجیکٹ پر سنجیدگی واضح کی گئی۔

بعد ازاں یہ آرڈیننس میعاد ختم ہونے پر جنوری میں بڑھایا گیا اور 120روز کی توسیع ملی تاہم پارلیمان نے اسے اب تک منظور نہیں کیا۔ آئین یہ کہتا ہے کہ سی پیک سمیت کوئی بھی آرڈیننس صرف ایک ہی بار توسیع حاصل کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

کرپشن کے الزامات  اور تردید

جنرل عاصم سلیم باجوہ پر بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے جس کی انہوں نے سختی سے تردید کی تاہم یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ الزامات کیا ہیں۔

پاکستانی صحافی احمد نورانی نے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں جنرل عاصم باجوہ پر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے۔

مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ سن 2002ء سے پہلے تک کوئی کاروبار جنرل عاصم باجوہ یا ان کے قریبی رشتہ داروں کے نام پر نہیں تھا جن میں ان کی اہلیہ، بیٹے اور بھائی شامل ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹ کہتی ہے کہ جب جنرل عاصم باجوہ سابق صدر پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر بنے تو یہ صورتحال تبدیلی کی طرف بڑھی۔ جنرل عاصم باجوہ کی اہلیہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے یو اے ای، امریکا اور کینیڈا میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ اپنے اثاثہ جات کی تفصیل میں یہ کہہ چکے ہیں کہ میری یا میری اہلیہ کی پاکستان سے باہر کوئی سرمایہ کاری نہیں۔ احمد نورانی کے مطابق جنرل باجوہ کے بیٹے نے ایک مائننگ کمپنی اس وقت شروع کی جب جنرل عاصم بلوچستان میں جنوبی کمانڈ کے کمانڈر تعینات تھے۔

احمد نورانی کی رپورٹ کے مطابق لیبر اینڈ مین پاور سپلائی کمپنی ایک ڈاکٹر نے شروع کی جو دراصل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بھائی ہیں جبکہ ان کی اہلیہ سمیت خاندان کے دیگر افراد فاسٹ ٹیلی کام اور باجکو ٹیلی کام کمپنیوں کے مالک ہیں جو ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ بھی نہیں، جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ تمام الزامات مسترد کردئیے ہیں۔ 

چیئرمین سی پیک اتھارٹی عہدے پر برقرار رہیں گے یا نہیں؟

وفاقی حکومت نے جو آرڈیننس جاری کیا تھا، قانونی طور پر تو وہ ختم ہوچکا ہے جس کے بعد چیئرمین کے عہدے کے ساتھ ساتھ خود اتھارٹی بھی اپنے قیام کا جواز کھو چکی ہے، پھر بھی یہ حکومتِ وقت کی صوابدید پر ہے کہ وہ آگے کیا کرتی ہے؟

اپوزیشن رہنما سی پیک اتھارٹی کے خلاف احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں تاہم ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ایک آرڈیننس لاکر سی پیک اتھارٹی قائم کرسکتی ہے تو کیا دوسرا آرڈیننس لا کر اسی طرز کا دوسرا ادارہ کسی اور نام سے قائم نہیں کرسکتی جہاں جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو ہی چیئرمین مقرر کیا جائے؟

Related Posts