وزیر اعظم عمران خان نے منتخب نمائندوں کو فنڈز جاری کا حکم جاری کیا تھا، جس کا سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوٹس لے لیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو کارروائی کی جاسکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے ہر ممبر کو اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی اسکیمیں چلانے کے لئے 500 ملین روپے کی منظوری دی تھی۔ وزیر اعظم کو اتحادیوں کے پارلیمانی اجلاس کے بعد شکایات کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ منتخب نمائندوں نے ترقیاتی اہداف کی تکمیل کے لئے فنڈز کی کمی پر تنقید کی تھی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات سے قبل ہی ترقیاتی فنڈز جاری کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ افزائی کا اقدام قرار دیا اور الیکشن کمیشن سے اس کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے، وزیر اعظم کو صرف حکمران اتحاد کے پارلیمنٹیرینز کوفنڈز جاری کرنے اور اپوزیشن کو نظرانداز کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو اپنے حلقوں میں ترقیاتی اسکیمیں چلانے سے قاصر ہیں۔
ترقیاتی فنڈز کی فراہمی نے ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے کیونکہ عمران خان نے حزب اختلاف کے رہنما ء کی حیثیت سے اس اقدام کی مخالفت کی تھی اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اس عمل کو روکنے کا عزم کیا تھا۔ تاہم، انہیں پارٹی پارلیمنٹیرینز اور اتحادیوں کے لئے ترقیاتی فنڈز جاری کرنا پڑے۔ پچھلے سال ایم کیو ایم نے دھمکی دی تھی کہ اگر کراچی کے لئے ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے گئے تو حکمران اتحاد چھوڑ دیں گے اور اب وزیر اعظم کی جانب سے ایک بار پھر اس غیر فطری اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے ان کے مطالبے کو قبول کرلیا گیا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز جاری کروانا ایم این اے اور ایم پی ایز کے لئے ایک مضبوط راستہ ہے، انہیں یہ فنڈ پی ایس پی ڈی سے جاری کیا جاتا ہے جو وفاقی بجٹ کا ایک حصہ ہے اور منتخب نمائندے کے حلقے کی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال ہوتا ہے،جیسے اسکولوں، کالجوں یا بنیادی ڈھانچے سے متعلق اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ بیوروکریٹس کی ملی بھگت کے باعث اکثر منصوبے نامکمل رہ جاتے ہیں، پارلیمنٹیرین ان منصوبوں کے انحصار پر اپنے آنے والے الیکشن میں جیتنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُمید دلاتے ہیں کہ انہوں نے ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا۔
یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ان فنڈز کا غلط استعمال ہونے کا رجحان ہے اور یہ سیاسی جھگڑوں سے محفوظ رہنے کے لئے منتخب نمائندوں کو پیسوں کی صورت میں رشوت کی ایک شکل ہو،تاہم، منتخب عہدیدار اپنے حلقے میں منصوبے لانے اور سرپرستی حاصل کرنے کے تاثر کو استعمال کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ترقیاتی فنڈز کا صحیح استعمال ہو اور منتخب اراکین پارلیمنٹ ان کے جوابدہ ہوں۔