کراچی:ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے تجویز دی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مانیٹری پالیسی ریٹ میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں مزید افراط زر، معاشی جمود اور صنعتی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان میں پالیسی ریٹ ٹول کا استعمال غیر فائدہ مند رہا ہے؛کیونکہ پاکستان کی معیشت مالیاتی شعبے کے ساتھ کم مربوط ہے۔ وہ ایف پی سی سی آئی کے پالیسی ایڈوائزری بورڈ کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین مانیٹری پالیسی بریف کے شواہد پر مبنی نتائج کی بنیاد پر اپنی سفارشات دے رہے تھے۔
سابق وفاقی سیکریٹری محمد یونس ڈھاگہ کی سربراہی میں کام کرنے والے ایف پی سی سی آئی کے پالیسی ایڈوائزری بورڈ نے پاکستان میں مانیٹری پالیسی کی اثر انگیزی کا جائزہ کے عنوان سے ایک پالیسی بریف شائع کیا ہے جو آئندہ مانیٹری پالیسی کے لیے ایف پی سی سی آئی کی سفارشات کو مرتب کرتا ہے۔
یہ دستاویز مہنگائی کی وجوہات اور بنیادی معاشی اصولوں، کاروباری سائیکل پوزیشننگ اور مانیٹری پالیسی سروے کے تجزیہ پر مبنی مالیاتی پالیسی کی افادیت کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرتی ہے؛ جس کے جواب دہندگان اقتصادی ماہرین، مالیاتی ایکسپرٹس اور صنعتی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق صرف 7 فیصد تجارتی ادارے ملک کے بینکنگ اور مالیاتی نظام سے قرض لیتے ہیں اور یہ حقیقت پالیسی کی شرح میں اضافے کے ذریعے افراط زر کے کنٹرول اور انتظام کو غیر موثر بناتی ہے اور ایک آلے کے طور پر اس کی افادیت کو محدود کرتی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان افراط زر کی شرح 11اعشاریہ5 فیصد تک بڑھنے کے ساتھ ساتھ معاشی جمود کی طرف بھی بڑھ رہا ہے جب کہ نومبر 2021 میں کور انفلیشن 7اعشاریہ6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مہینوں میں پالیسی ریٹ میں 25 بیسز پوائنٹس اور 150 بیسز پوائنٹس کا بتدریج اضافہ کیا ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس بالترتیب ستمبر اور نومبر 2021 میں ہوئے۔ اس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں تین ماہ کے ٹریژری بلوں کے لیے قابل قبول پیشکیش 228 بیسس پوائنٹس سے بڑھ کر 10 اعشاریہ78 فیصد ہو گئیں۔
مزید پڑھیں:پیٹرول کےبعدمہنگائی کی ماری عوام پر بجلی کابم بھی گرادیاگیا