بلدیاتی انتخابات کے بعد سٹی گورنمنٹ کی تشکیل

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کے شہری طویل عرصے سے بلدیاتی انتخابات کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کیونکہ شہر کو پانی کی قلت، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا فقدان وغیرہ سمیت کئی بلدیاتی مسائل کا سامنا ہے اور صرف ایک منتخب شہری حکومت ہی شہر کے ان تمام مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکتی ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ بلدیاتی انتخابات پرامن طریقے سے مکمل ہو گئے اور سٹی گورنمنٹ کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا۔ توقع کے مطابق انتخابات میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت نہیں ملی۔ لہٰذا کوئی بھی پارٹی کسی دوسری پارٹی کی مدد کے بغیر اپنا میئر منتخب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 90 سے زائد نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے لیکن اس کے باوجود وہ اکیلے میئر کا انتخاب نہیں کر سکی۔

جماعت اسلامی (جے آئی) 85 سے زائد نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یونین کمیٹی چیئرمین کی 40 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔سٹی گورنمنٹ بنانے کے لیے ان تینوں میں سے کسی بھی دو پارٹیوں کو ہاتھ ملانا ہو گا۔ ابھی تک سیاسی اختلافات کی وجہ سے کسی بھی جماعت نے میئر شپ کے لیے کسی دوسری جماعت کی حمایت کا اعلان نہیں کیا، اس لیے ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ نئی شہری حکومت کی شکل کیا ہوگی۔

نشستوں کے لحاظ سے سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے پی پی پی کو اپنا میئر بنانے کا حق ہے لیکن اس کے لیے اسے جماعت اسلامی یا تحریک انصاف کی حمایت درکار ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بھی مشترکہ طور پر سٹی گورنمنٹ بنا سکتے ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس صورتحال میں پیپلز پارٹی جو کہ سندھ میں حکمران جماعت ہے سٹی گورنمنٹ کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی اور اس کے نتیجے میں پورٹ سٹی کے مسائل حل کرنے کے لیے یہ حکومت نہیں چل سکے گی۔

مسئلے کا واحد حل پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں پاور شیئرنگ فارمولا ہے۔ پہلے ایک پارٹی کو نصف مدت یعنی ڈھائی سال کے لیے میئر کا عہدہ دیا جائے اور بعد میں باقی مدت کے لیے یہ عہدہ دوسری پارٹی کو دیا جائے۔کراچی والے اپنے مسائل کے حل کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ سیاسی جماعتوں کو اس نکتے کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے اور کراچی اور اس کے شہریوں کی خاطر سیاسی مفاہمت پر عمل کرنا چاہیے۔

Related Posts