آج پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ معیشت کی تباہی کی وجہ سیاستدان ہیں یا عوام؟ ہر حکومت میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہا ہے مگر کسی حکومت نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر خود کو مجبور اور بے کس ظاہر کیا جاتا رہا۔
دراصل ترقی وہ ملک کرتا ہے جو اپنی کوتاہیوں کو بہانہ بنا کر چھپانے سے احتراز کرے اور مسائل کا حل نکالے۔ ہماری حکومتیں کبھی عوام تو کبھی دیگر ممالک کی سازش یا عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے اضافے کو بہانہ بنا کر مہنگائی کو اس قدر بڑھا چکی ہیں کہ اب لوگوں کیلئے جینا بھی اجیرن ہوگیا ہے۔
ہر سیاسی جماعت اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی نظر آتی ہے لیکن جب یہی جماعت اقتدار میں آئے تو ساری تنقید بھول کر کوئی نہ کوئی جھوٹی سچی وجہ بیان کر اپنی کوتاہیوں کو چھپانے پر توجہ صرف کرتی ہے۔ پہلے کوتاہیوں کو سابق حکمرانوں کے سر تھوپا جاتا تھا، لیکن آج کل تو عوام کو بھی قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے۔
اب یہ عالم ہے کہ حکومت عوام پر الزامات لگاتی ہے کہ عوام فضول خرچی کرتے ہیں، جو انہیں بند کردینی چاہئے۔کیا اپنے غم و غصے کو کم کرنے کیلئے ایک کپ چائے کا سہارا لینا فضول خرچی ہے؟ اگر کچھ لوگ اپنے ذہنی آرام اور تسکین کیلئے چائے پی کر دنیا کا سارا غم بھلا دینا چاہتے ہیں تو حکومت اس پر بھی قدغن لگانے کیلئے تیار نظرآتی ہے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ چائے پینا چھوڑ دیجئے۔ آپ بہت چائے پیتے ہیں۔ کوئی اس حکومت کو بتائے کہ چائے اور سگریٹ کی عادت انسان کی پریشانیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس ملک میں کسی قسم کی تفریح یا آسائش کے بارے میں عوام آج کل سوچ بھی نہیں سکتے۔
حیرت انگیز طور پر حکومت کو افغانستان میں جو گندم، چینی، خوردنی تیل اور کھاد بھاری تعداد میں غیر قانونی طور پر اسمگل ہوتی ہے، وہ تو نظر نہیں آتی، عوام کی ایک پیالی چائے نظر آجاتی ہے اور پھر وہ چائے بھی چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر حکومت غیر قانونی اسمگلنگ کی روک تھام پر توجہ دے تو تجارتی خسارے میں کمی لانا آسان ہوسکتا ہے۔
صبح سے لے کر رات تک عوام مسلسل پریشان رہتے ہیں کہ کل کا دن کیسے گزرے گا؟ صبح اٹھتے ہی ذہن میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ گھر کا راشن، بچوں کی اسکول کی فیس، بجلی کے بل، ڈاکٹر اور دوائیوں کے اخراجات، کہاں سے پورے ہوں گے؟
ملازمت پیشہ حضرات اپنے فیکٹری یا کاروبار مالکان سے تنخواہ بڑھانے کی درخواست کرنے سے بھی گھبراتے ہیں، کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان کے مالکان بھی اس وقت نقصان میں کاروبار کر رہے ہیں اور زیادہ زور دینے پر ہوسکتا ہے کہ مالک اپنے ملازم کو نوکری سے ہی نکال دے۔
کیا حکومت یہ نہیں جانتی کہ بجلی کی قیمت میں اضافے سے تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں؟ اور کیا یہ بھی علم نہیں کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھانے سے بھی تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر فرق پڑتا ہے؟
رہا سوال قرض کا تو قرض کیلئے بھی شرحِ سود اتنی بڑھائی جاچکی ہے کہ قرض لینے کا سوچنا بھی گناہ بن گیا ہے کیونکہ سود در سود سے قرض کی واپسی انتہائی مشکل بنادی گئی ہے اور جو لوگ قرض لے رہے ہیں، انہیں سر کی چھت سے بھی محروم ہونا پڑ رہا ہے۔
پاکستان کے عوام گزشتہ 70 برسوں سے صرف اپنی حکومت سے یہی درخواست کرتے آئے ہیں کہ بجلی اور پیٹرول کی قیمت کم رکھیں۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور بزرگوں کی دوائیں بھی مہنگی نہ کی جائیں۔ مگر ہر حکومت اپنے اخراجات میں تو اضافہ کرتی رہتی ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ حکومت ملکی ترقی پر پیسے خرچ کر رہی ہے۔
عام طور پر ملک کا ترقیاتی بجٹ سب سے زیادہ رکھا جاتا ہے مگر افسوس کہ انسانی وجود کی بہتری کیلئے آٹے میں نمک کے برابر رقم مختص کی جاتی ہے۔ انسان کی زندگی بہتر بنانے کیلئے صحت اور تعلیم بہت ضروری ہیں مگر گزشتہ 70 برس میں ان شعبوں پر کسی حکمران نے توجہ نہیں دی۔
دوسری جانب سڑکیں، پل، موٹر وے، ائیرپورٹ اور دیگر عمارات کی تعمیر کیلئے پیسہ خرچ کیا جارہا ہے۔ خدارا انسان کی ضروریات کیلئے بھی کام کریں اور ان کے گھر کے اخراجات کو کم کرنے کے منصوبے بنائیں۔ آج زندہ رہنے کے اور پیداوار کے اخراجات دونوں اتنے زیادہ ہیں کہ عام انسان کیلئے جینا اور کاروباری حضرات کیلئے کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
مانا کہ دنیا بھر میں مہنگائی عروج پر ہے مگر پھر بھی دیگر ممالک کے عوام کے بچوں کیلئے مفت معیاری تعلیم اور زندگی کی دیگر ضروریات آسانی سے فراہم ہوتی ہیں جبکہ حکومتیں عوام کیلئے سہولیات دن رات بہتر بنانے میں مصروفِ عمل رہتی ہیں۔
ہمارے ہاں دن رات صحیح سڑکیں بھی توڑ کر دوبارہ بہتر بنانے پر زیادہ پیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ساری عوام جانتی ہے، مگر اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنی ضرورت کی اشیاء بشمول بجلی، پانی، تعلیم، صحت اور سر چھپانے کیلئے چھت کا مطالبہ کرے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جو سیاسی پارٹی عوام کے مطالبات پورے نہ کرے، عوام ان کو ووٹ نہ دیں اور اپنے حقوق کے حصؤل کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ سیاسی لوگوں پر دھوکہ دہی اور منافقت کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔